صورہ میڈیکل انسٹی چیو ٹ میں جا ری بے ضابطگیوں اور بد عنوانیوں پر سرینگر کے سماجی کا رکن کا مرکزی وزیر داخلہ کے نام مکتوب
COVID-19کی آڑ میں خزانہ ٔ عامرہ کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے اور اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو غیر قانونی طور فوائد پہنچانے کا الزام ،تحقیقات کا مطالبہ
سرینگر//کے پی ایس // صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں پچھلے کچھ عرصے سے جاری غیر قانونی تقرریوں اور مبینہ بے ضابطگیوں کی پاداش میں سرینگر کے ایک سماجی کارکن نے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کے نام ایک مکتوب روانہ کیا ہے جس میں انہوں نے اس معروف طبی ادارے میں ہورہی بے ضابطگیوں کی شکایت کرتے ہوئے ان کی تحقیقات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ کشمیر پریس سروس کے پاس موجود شکایتی خط کے مطابق مذکورہ سماجی کارکن نے لکھا ہے کہ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ کے موجودہ ڈائریکٹر ڈاکٹر اے جی آہنگر کے دور میں جو کہ چار سال پر محیط ہے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں چور دروازے سے کئی تقرریاں ہوئی ہیںجبکہ انسٹی چیوٹ میں گھپلہ بازی اورا قرباء پروری عروج پر ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ نوکری سے سبکدوش ہو ئے ایک آفیسر کو موجودہ ڈائر یکٹر نے نہ صرف بحیثیت ایڈ منسٹریٹو آفیسر اکیڈمک تعینا ت کیا بلکہ اُسے اسسٹنٹ کنٹرولر امتحانات کی کُر سی بھی دیدی ۔انہوں نے ہسپتال ذرائع کا حوالہ دیتے ہو ئے کہا کہ Covid-19کی وباء کی روکتھام کے نام پر ڈائریکٹر موصوف نے دودرجن سینئر ریذیڈنٹس کو تعینا ت کیا حالانکہ ان میں سے کو ئی بھی کورونا وائرس کی روکتھا م کے حوالے سے نہ کو ئی تجربہ اور نہ ہی اہلیت رکھتا تھا اور ہسپتال کے کئی سرکر دہ ڈاکٹروں نے ان تعینا تیو ں کے خلا ف آواز بھی اُٹھا ئی تھی ۔انہوں نے خط میں لکھا ہے کہ کورونا وائرس کے موجودہ وباء کے دوران ڈائریکٹر سکمز کے احکامات کے تحت انسٹی چیوٹ کی Chasiss نمبر کی ایک ایمبولنس گاڑی کو لاک ڈائون کے دوران مشکوک سرگرمیوں کے لئے دہلی بھیجا گیا ، حالانکہ اس مدت کے دوران اسپتالوں میں ایمبولنس گاڑیوں کی زبردست کمی تھی۔ انہوں نے لکھا ہے کہ سرکار کی جانب سے صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں کام کر رہے ڈاکٹروں کی پرائیوٹ پریکٹس پر پابندی کے باوجود انسٹی چیوٹ کے اکثر نامی گرامی معالج پرائیوٹ پریکٹس کے غیر قانونی دھندے میں ملوث ہیں اور انہیں ڈائریکٹر سکمز کی براہ راست پشت پنا ہی حاصل ہے۔ خط میں الزام لگایا گیا ہے کہ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں ہونے والی کسی بھی تعمیر کے سلسلے میں اْسی ٹھیکہ دار کو ٹھیکہ الاٹ کیا جاتا ہے جو ڈائریکٹر موصوف کو کمیشن کا حصہ پہنچائے۔ مذکورہ سماجی کارکن نے یہ بھی شکایت کی ہے کہ صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں اکثر و بیشتر ادویات کی خریداری بغیر کوئی ٹینڈر جاری کئے کی جاتی ہے اور اس میں سے بھی ڈائریکٹر مو?صوف کو باضابطہ طور اپنا حصہ ملتا ہے۔ اس کے علاوہ ادویات انتہائی مہنگے داموں خریدی جاتی ہے جس سے خزانہ عامرہ کو بھاری نقصان سے دوچار ہونا پڑتا ہے اور اس کی مثال سال 2016میں پیلٹ متاثرہ مریضوں کے لئے M/S Ali Jana نامی کمپنی سے خریدی گئی وہ ادویات ہیں جن پر مذکورہ کمپنی نے بازار کی قیمت سے 70فیصد زیادہ قیمتیں وصول کی۔ حالانکہ انسٹی چیوٹ کی پرچیز کمیٹی نے ان قیمتوں کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے اس بات کی سفارش کی تھی کہ مذکورہ کمپنی کو ان ادویات کی ادائیگی نہ کی جائے تاہم ڈائریکٹر میڈیکل انسٹی چیوٹ صورہ نے تمام تر سفارشات اور قواعد و ضوابط کو بالائے طاق رکھتے ہوئے M/S Ali Jana نامی کمپنی کو رقومات فراہم کی۔ اس کے علاوہ 30اپریل 2020کو انسٹی چیوٹ نے ایک ٹینڈر نوٹس زیر نمبر SIMS-325-Covid19-2020-3719-26 جاری کرتے ہوئے کمپنیوں سے PPEکِٹ کی سپلائی
طلب کی تھی اور ٹینڈر اشتہار میں کہا گیا تھا کہ یہ ساز و سامان جنگی پیمانے پر انسٹی چیوٹ کو درکار ہے ،مگر ستم ظریفی کی بات ہے کہ 30اپریل سے ا?ج تک یہ ٹینڈر کسی بھی کمپنی کو فراہم نہ کیا گیا اور اس دوران اسپتال میں استعمال ہونے والے PPEکِٹس اور دیگر ساز وسامان ڈائریکٹر موصوف نے اپنے ایک رشتہ دار سے مہنگے قیمتوں حاصل کئے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ انسٹی چیوٹ میں اقرباء پروری عروج پر ہے۔ اس کے علاوہ خط میں لکھا گیا ہے کہ انسٹی چیوٹ نے Malik Sales خانیار سے وینٹی لیٹر 6لاکھ 85ہزار روپے میں خریدا جبکہ بازار میں اس کی قیمت محض 3لاکھ 65ہزار ہے اور انسٹی چیوٹ کی پرچیز کمیٹی کی جانب سے رَد کئے جانے کے باوجود ڈائریکٹر موصوف نے یہ وینٹی لیٹر خریدنے کے احکامات صادر کئے کیونکہ اس میں مبینہ طور اْسے کمیشن دیا گیا۔ اسی طرح سے ایک کروڑ روپے میں خریدے گئے پانچ سو بیڈ غیر معیاری اور ناقابل استعمال ہیں۔ اس دوران یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہسپتال میں درکار اکثر ادویات ڈائریکٹر موصوف کے اپنے قریبی رشتہ دار فراہم کرتے ہیں اور اس حوالے سے ایک تو نہ کوئی ٹینڈر جاری کیا جاتا ہے اور دوسرا یہ ادویات انتہائی مہنگے قیمتوں پر خریدی جاتی ہیں۔ خط میں لکھا گیا ہے کہ حکومت کی جانب سے اگر چہ انسٹی چیوٹ کو ہر سال کروڑوں روپے فراہم کئے جاتے ہیں تاہم اس رقم کا ایک بڑا حصہ ڈائریکٹر موصوف اور اْس کے نزدیکی اہلکاروں کے کھاتوں میں جاتا ہے۔ سماجی کارکن نے شکایت کی ہے کہ لوگ اس انسٹی چیوٹ سے کافی توقعات وابستہ رکھتے ہیں مگر انسٹی چیوٹ میں کرپشن اور گھپلہ خوری کی وجہ سے مریضوں کو زبردست مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے نتیجے میں اکثر مریضوں نے انسٹی چیوٹ کا رْخ کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ علاج و معالجہ کی خاطر اب جموں وکشمیر سے باہر کے اسپتالوں کا رْخ کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ سماجی کارکن نے وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی ہے کہ وہ انسٹی چیوٹ میں ہو رہی بے ضابطگیوں اور اقرباء پروری کی تحقیقات کے لئے ایک اعلیٰ سطحی تحقیقات عمل میں لائیں تاکہ یہاں ہو رہے گھپلوں اور چو ردروازے کی بھرتیوں کا پردہ فاش کیا جاسکے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ کورونا وائرس کی وبائ کے دوران صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں بد انتظامی کے کئی واقعات پیش آئے جن کو مقامی میڈیا نے بھی شائع کیا تاہم ڈائریکٹر موصوف ٹس سے مس نہیں ہو رہے ہیں۔
Comments are closed.