سرینگر/23ستمبر:نیشنل کانفرنس کے جنوبی کشمیر کے رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی نے جموں وکشمیر سرکاری زبان بل 2020 کو آئین کے منافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ قانون جموں و کشمیر تنظیم نوایکٹ کا نتیجہ ہے ، جس کی جوازیت ہندوستان کی عدالت عظمیٰ میں زیر سماعت ہے۔سی این آئی کے مطابق لوک سبھا میں جموں و کشمیر سرکاری زبانوں کے بل پر بات کرتے ہوئے مسعودی نے کہا کہ یونین آف انڈیا سے الحاق کے وقت تک جموں و کشمیر ایک خود مختار ملک تھا جس کا اپنا آئین تھا جو دوسرے راجواڑوں کے برعکس 1950تک برقرار رہا۔ اس کے بعد ہندوستان کے آئین نے جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے کی سہولت فراہم کی۔بعد ازاں جموں و کشمیر نے اپنی آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جس نے 1957میں اپنا کام مکمل کرکے ریاست کو آئین دیا۔ انہوں نے کہا کہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے 1899 میں اردو کو جموںوکشمیر کی سرکاری زبان بنایا تھا اور جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے بھی اردو کو ہی ریاست کی سرکاری زبان رکھا۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کو اختیار نہیں ہے کہ وہ جموں وکشمیر کو دو مرکزی زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرکے اس کے آئین کو ختم کردے۔جموں وکشمیر کے آئین میں ترمیم کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی غیر آئینی قرار دیتے ہوئے مسعودی نے کہا کہ ریاست کا آئین ابھی بھی نافذ ہے اور اردو، جو ریاستی آئین کی دفعہ 145 کے تحت ریاست کی سرکاری زبان ہے ، اب بھی جموں وکشمیر کی سرکاری زبان ہے ۔آئین کو منسوخ نہیں کیا جاسکتا ہے اور پارلیمنٹ اس کو منسوخ کرنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ آئین کو صرف آئین ساز اسمبلی یا رائے شماری کے ذریعہ ہی تبدیل کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے جموں وکشمیر کا آئین کالعدم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ اب بھی نافذ العمل ہے۔حکومت کی طرف پیش کردہ جموں وکشمیر سرکاری زبانوں کا بل 2020 جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کا ہی نتیجہ ہے جس کو مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے 12 عرضی گزاروں نے قانونی طور پر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے اور اس کی جوازیت اس وقت بھی ملک کی سب سے بڑی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ملک کی عدلیہ کے احترام اور پارلیمان کے جمہوری اصولوں کو ملحوظ نظر رکھ کر جموں وکشمیر سرکاری زبانوں کے بل کو واپس لیا جانا چاہئے۔مسعودی نے ایوان میں کہا کہ جموں وکشمیر میں5سرکاری زبانیں بنا کر کنفیوژن پیدا کیا جارہا ہے جبکہ ملک کی کسی بھی ریاست میں دوسے زیادہ سرکاری زبانیں نہیں ہیں اور حقیقت ی ہے کہ ہر ایک ریاستوں میں بہت ساری زبانی بولی اور پڑھائی جاتی ہیں۔ مسعودی نے مرکزی حکومت پر زور دیا کہ وہ جموں وکشمیر تنظیم ایکٹ 2019کے تحت بنائے کئے قوانین کو واپس لیکر عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کرے۔
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.
Comments are closed.