
کورونا وائرس کی لہر:وادی میں لاک ڈان کا سلسلہ سختی سے جاری
وادی کشمیر تمام مساجد دوسری جمعہ کو بھی خاموش رہی،نماز جمعہ کی ادائیگی معطل
سرینگر 3/اپریل /کے این ٹی // سخت ترین سیکورٹی انتظامات کے چلتے وادی کشمیر کی تمام مساجدکے ممبر و محراب دوسری جمعہ کو بھی خاموش رہے اور لوگوں نے اپنے گھروں میں ہی نماز ظہر اداکی۔اس دوران اگر کہیں پر لوگوں نے مسجدوں میں نماز جمعہ ادا بھی کی تاہم ۴سے زیادہ افراد کسی مسجد میں نظر نہیں آئے۔کشمیر نیوز ٹرسٹ کے مطابق کے کورونا وائرس کے پھیلاو کی روک تھام کو ممکن بنانے کیلئے وادی کشمیر میں لاک ڈاون کا سولیویں روزبھی مکمل لاک ڈاون رہا اور شہر سری نگر سے لے کر ضلع و تحصیل صدر مقامات تک ہر سو سناٹا اور اضطراب و بے قراری کا ماحول طاری رہا،جس کے نتیجے میں دوسری جمعہ کو بھی وادی کے۔اطراف و اکناف کی مساجد میں نماز جمعہ ادا نہ ہو سکی۔کے این ٹی کے مطابق بیشتر عبادت گاہوں کو رضاکارانہ طور پر بند کیا گیا ہے اور کہیں بھی نماز جمعہ کا اجتماع منعقد نہیں ہوا۔کورونا وائرس کے مثبت کیسوں میں روز افزوں اضافے اور دو وائرس متاثرہ معزز افرادوں کی اموت سے جہاں لوگ دہشت زدہ ہیں وہیں حکومت نے بھی لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرنے کے لئے پابندیوں کو مزید سنگین کیا ہے۔جموں وکشمیر حکومت نے تمام ضلع مجسٹریٹوں اور ضلعی پولیس سربراہاں کو ہدایت دی ہے کہ وہ مذہبی لیڈران تک یہ پیغام پہنچائیں کہ وہ کسی بھی صورت کوئی جلسہ یا اجتماع نہ بلائیں۔واضع رہے سرکاری ترجمان روہت کنسل نے گذشتہ جمعہ اپنے ایک ٹویٹ میں کہا: ‘کورونا وائرس کے خلاف جنگ۔ڈی سیز اور ایس پیز کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ مذہبی لیڈران کو سختی سے خبردار کریں کہ وہ کوئی جلسہ یا اجتماع نہ بلائیں۔وادی کے دیگر ضلع و تحصیل صدر مقامات سے بھی اسی نوعیت کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ضلع انتظامیہ کی طرف سے دفعہ ۴۴۱ برابر نافذ ہے اور لوگوں کو گھروں میں بیٹھے رہنے کو یقینی بنانے کے لئے پولیس گاڑیاں مسلسل چکر کاٹ رہی ہیں اور لوگوں کو گھروں میں ہی بیٹھنے کی اپیل کرتے ہیں۔وادی میں سری نگر سے لے کر دیہات تک کہیں بھی نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی تاہم ازاد ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وادی کے کسی کسی اندرونی علاقے میں کہیں کہیں پر مساجد میں اذان ہوئی تاہم مسجد کے اندر صرف پانچ افراد داخل ہوئے جنہوں نے مختصر طریقے سے نماز اداکی اور کہیں پر بھی کسی بڑے اجتماع منعقد ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔(کے این ٹی)
Comments are closed.