کشمیر کی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے ۔اگر تبدیلی آئی ہوتی تو تین سابق وزرائے اعلیٰ گھروں میں نظر بند نہیں ہوتے /سابق آئی اے ایس آفیسر

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اگر ہندو احتجاج کریں تو اُنہیں ملک دشمن اور اگر مسلمان دھرنا دے تو اُسے دہشت گرد کہاجاتا ہے
سرینگر30جنوری//یو پی آئی // کشمیر کی صورتحال کو لے کر اپنے عہدے سے مستعفی ہونے والے سینئر آئی اے ایس اافیسر نے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون ، این پی آر اور این آر سی کے لاگو ہونے سے ملک میں کرپشن کی جڑیں مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ نفرت پھیلے گی۔ انہوںنے دعویٰ کیا کہ جموں وکشمیر کی صورتحال میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی جبکہ ابھی بھی لیڈران نظر بند ہیں۔گوپی ناتھن نے کہاکہ مرکزی حکومت نے جموںوکشمیر کے لوگوں کی رائے اور مرضی کے بغیر 370کو منسوخ کیا اور اس طرح سے اُنہیں اظہار رائے کی آزادی سے محروم رکھنے کی بھر پور سعی کی گئی۔ خبر رساں ایجنسی یو پی آئی کے مطابق جے پورہ میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے سابق آئی اے ایس آفیسر ”کنان گوپی ناتھ “ نے کہا کہ مرکزی حکومت کی جانب سے جو نئے قوانین منظر عام پر لائے گئے وہ جمہوریت کے منافی ہے۔ انہوںنے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون ، این پی آر اور این آر سی کے لاگو ہونے سے ملک میں نفرت کا بول بولا ہوگا جبکہ اس قانون سے کرپشن کی جڑیں بھی مضبو ط ہو ں گی۔ سابق آئی اے ایس آفیسر نے کہاکہ این پی آر اور این آر سی ملک کے غریب عوام کے خلاف ہے ۔ انہوںنے کہاکہ موجودہ مرکزی حکومت غریبوں کے خلاف قانون بنا رہی ہیں۔ انہوںنے کہاکہ قلیل لوگوں کو ہی اس قانون کے فوائد ملیں گے جبکہ زیادہ تر لوگوں کو درانداز ہی کہا جائے گا۔ انہوںنے کہاکہ جس کسی نے بھی این پی آر اور این آر سی کے متعلق ٹھوس کاغذات پیش نہیں کئے اُنہیں دراندازی کی لسٹ میں رکھا جائے گا جو ملک کے دستور کے خلاف ہے۔ انہوںنے کہاکہ شہریت ترمیمی قانون جمہوریت کے منافی ہے لہذا مرکزی حکومت کو اس قانون کو فوری طورپر منسوخ کرنا چاہئے۔ سابق آئی اے ایس اافیسر کا مزید کہنا تھا کہ ملک کی اکثر ریاستوں نے شہریت ترمیمی قانون ، این پی آر اور این آر سی کی مخالفت کی ہے اب مرکزی حکومت پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اکثریتی لوگوں کی رائے کو ملحوظ نظر رکھ کر ان قانون کو منسوخ کریں۔ انہوںنے کہاکہ اس قانون کے تحت صرف تین ممالک پاکستان ، بنگلہ دیش اور افغانستان سے آئے ہوئے غیر مسلموں کو شہریت ملیں گے باقی ممالک کے جتنے بھی لوگ ملک میں آباد ہیں اُن کے متعلق کچھ بھی نہیں کہا گیا جو ملک کے آئین کے منافی ہے۔ گوپی ناتھن کے مطا بق جو بھی شخص یا پارٹی اس قانون کے خلاف احتجاج کرتی ہیں اُنہیں غدار کہا جارہا ہے جو حیران کن ہے۔ انہوںنے بتایا کہ اگر اس قانون کے خلاف گاﺅں کے لوگ آواز اُٹھاتے ہیں تو اُنہیں اربن نکسل کہا جاتا ہے ، اگر طلبا اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں تو اُنہیں ٹکڑے ٹکڑے گینگ کا لقب دیا جاتا ہے ۔ اور اگر مسلمان اس کے خلاف اپنی آواز بلند کرتے ہیں تو اُنہیں دہشت گرد کہا جاتا ہے۔ انہوںنے کہا کہ اور اگر ہندو طبقے سے وابستہ لوگ اس کے خلاف کچھ کہتے ہیں تو اُنہیں قومی غدار کا لقب دیا جاتا ہے۔ نامہ نگاروں کی جانب سے کشمیر کی موجودہ صورتحال کو لے کر پوچھے گئے سوال کے جواب میں گوپی ناتھن نے کہاکہ مرکزی حکومت نے جموںوکشمیر کے لوگوں کی رائے اور مرضی کے بغیر 370کو منسوخ کیا اور اس طرح سے اُنہیں اظہار رائے کی آزادی سے محروم رکھا۔ انہوںنے کہاکہ اس غیر قانونی اقدام سے میں نے آئی اے ایس کی نوکری کو خیر باد کہا ۔ انہوںنے کہاکہ ہمیں کشمیری لوگوں کی آواز کو ہر سطح پر بلند کرنا چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ جہاں تک کشمیر کی موجودہ صورتحال کا تعلق ہے تو میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہاںخاص تبدیلی زمینی سطح پر نہیں دیکھی جارہی ہیں۔ انہوںنے کشمیر کی صورتحال کو سوڈان اور سیریا سے بھی جوڑ دیا۔ سابق آئی اے ایس آفیسر کے مطابق جموںوکشمیر کے تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت سینکڑوں افراد کو بغیر کسی جرم کے نظر بند رکھا گیا ۔

Comments are closed.