جموں میں روہنگیائی شہریوں کو پناہ دینے کے الزام میں ملوث افراد کے خلاف 7 تھانوں میں مقدمے درج: پولیس
جموں، 19 دسمبر
پولیس نے صوبہ جموں میں روہنگیائی پناہ گزینوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھتے ہوئے روہنگیائی شہریوں کو پناہ دینے اور انہیں سرکاری مراعات فراہم کرنے میں مدد کرنے میں ملوث افراد کے خلاف 7 پولیس تھانوں میں مقدمات درج کئے ہیں۔ایک پولیس ترجمان نے اپنے ایک بیان میں تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ روہنگیائی شہریوں کو پناہ دینے اور ان کو سرکاری مراعات دالوانے کے الزام میں ملوث افراد کے خلاف 7 تھانوں میں مقدمے درج کئے گئے۔
انہوں نے کہا کہ صوبہ کے مخلتف علاقوں میں تلاشی کارروائیوں کے بعد یہ مقدمات پولیس اسٹیشن ستواری، ترکوٹہ نگر، باغ بہو، چھانی ہمت، نو آباد،دومنہ اور نگروٹہ میں درج کئے گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مقدمے ان لوگوں کے خلاف درج کئے گئے ہیں جن پر غیر ملکی تارکین وطن کو پناہ دینے اور انہیں سرکاری مراعات دلوانے کا الزام ہے۔موصوف ترجمان کا کہنا ہے کہ مجسٹریٹوں کی موجودگی میں تلاشی کارروائیاں ان مقامات پر انجام دی گئیں جہاں روہنگیائی شہری رہائش پذیر ہیں۔انہوں نے کہا کہ روہنگیائی شہریوں کے سہولت کارروں کے رہائشی مقامات پر بھی تلاشی کارروائیاں انجام دی گئیں۔
ان کا کہنا تھا: ‘تلاشی کارروائیوں کے دوران غیر قانونی طور پر حاصل شدہ ہندوستانی دستاویز جیسے پین کارڈ، آدھار کارڈ، بینک دستاویزات سمیت دیگر مجرمانہ مواد بر آمد کیا گیا’۔ترجمان نے کہا کہ اس ضمن میں تحقیقات جاری ہیں اور مزید تفصیلات کو بھی شیئر کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مستقبل میں ایسے افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔بتادیں کہ قبل ازیں ضلع کشتواڑ میں پولیس نے روہنگیائی شہریوں کے خلاف کریک ڈاﺅن کے دوران آدھار کارڈ جیسے غیر قانونی طور پر حاصل کردہ دستاویزات کی باز یابی کے بعد ایک کیس درج کیا تھا۔روہنگیائی میانمار سے تعلق رکھنے والے بنگالی بولی بولنے والی مسلم اقلیت ہیں جو بنگلہ دیش کے راستے سے غیر قانونی طور پر ہندوستان میں داخل ہوئے اور جموں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں میں پناہ گزیں ہوئے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق روہنگیائی مسلمانوں اور بنگلہ دیشی شہریوں سمیت زائد از 13 ہزار 7 سو غیر ملکی شہری جموں اور جموں وکشمیر کے دیگر اضلاع میں مقیم ہیں۔سرکاری ڈاٹا کے مطابق سال 2008 سے سال 2016 تک ان کی آبادی میں 6 ہزار سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے۔یو این آئی
Comments are closed.