عشائی باغ نگین سرینگر میں ” ای فل الیکٹرانک وہیکل اور چارجنگ سلویشنز “ شو روم کا باضابطہ طور پر افتتاح
وادی میں ای رکشوں کی شروعات بڑھتی بے روز گاری پر کچھ حد تک قابو پانے کیلئے ایک اچھی پہل / راجہ محی الدین
سرینگر /03اگست / کے پی ایس
سرینگر کے عشائی باغ نگین علاقہ میں ” ای فل الیکٹرانک وہیکل اور چارجنگ سلویشنز “ شو روم کا باضابطہ طور پر افتتاح کیا گیا ۔
افتتاحی تقریب میں کشمیر پریس سروس میڈیا گروپ کے ایڈیٹر راجہ محی الدین نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی جبکہ ان کے ہمراہ جموں کشمیر بینک کے کلسٹر ہیڈ (فسٹ ) شبیر احمد بھلا اور بینک برانچ منیجر لال منڈی سرینگر میر روقص بھی موجود تھے ۔ تقریب میںایس ڈی پی او حضرت بل اور ایس ایچ او نگین کے علاوہ لوگوں کی بھاری تعداد نے شرکت کی ۔
شو روم کا افتتاح کرنے کے بعد سیلز ہیڈ نے میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ سرینگر میں شو روم کا افتتاح ایک ایسی کوشش ہے کہ شہر سرینگر کو پیٹرول اور ڈیزل سے ہونی والی آلودگی سے بچایا جا سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ ابتداءسرینگر سے ہوا اور دیر ے دیرے کشمیر کے ہر کونے تک پہنچنے کی کوشش کی جائے گی ۔ انہوں نے جموں کشمیر بینک کے تعاون کا خیر مقدم کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی مدد سے ہم اپنے تجارت کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔
اس موقعہ پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کے پی ایس میڈیا گروپ کے ایڈیٹر راجہ محی الدین نے بتایا کہ کشمیر میں آئے روز بڑھتی بے روز گاری پر کچھ حد تک قابو پانے کیلئے ایک اچھی پہل ہے اور اس سے کوشش یہی رہے گی کہ یہاں کے جو بھی بے روز گار نوجوان ان کو اپنا روز گار کمانے کا موقعہ ملے گا ۔
انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں دن بددن ای رکشا کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور کم کرایہ پر مسافروں کیلئے ایک آسائش ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ای رکشا حاصل کرکے اپنا روز گار کماتے ہیں جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب مارکیٹ بنانے کیلئے ای رکشا والو ں کو از خود سوچنا ہوگا کہ وہ کس طرح سے اپنے گاہکوں کے ساتھ پیش آئیں چاہئے کرایہ کا معاملہ ہو یا دوسرے کوئی ایسی چیز جس سے ان کو کسی بھی قسم کی پریشانیاں نہ ہو ۔ راجہ محی الدین نے کہا کہ آہستہ آہستہ وادی کشمیر میںای رکشا کا مارکیٹ بڑھتا جائے گا اور ہم یہی امید کرتے ہیں کہ ہمارے جو نوجوان روز گار کے متلاشی ہے یہ ان کیلئے ایک اہم ذریعہ بن جائے گا اور ہمار ا مکمل تعاون بھی ان کے ساتھ ہوگا ۔
Comments are closed.