بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں وائس چانسلر کی تقرری کامعاملہ
معطل شدہ پروفیسر کو وائس چانسلر کے عہدے کے انٹرویو کے لئے دعوت
دال میں کچھ کالا ضرور ہے ،سماج کے حساس طبقہ نے کیا تشویش کا اظہار
سرینگر /19اکتوبر / کے پی ایس : بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں وائس چانسلر کی تقرری کے لئے ایک فہرست تیار کی جاچکی ہے اس میںسابق ڈین ایس او ای ٹی محمد اصغر غازی جو ان دنوں یونیورسٹی میں مالی خرد برد کے الزامات کے بعدزیر آرڈر نمبرBGSBU/REG/20/4033بتاریخ 18/07/2020 معطل ہیں کو سرچ کمیٹی نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے آئندہ وائس چانسلر کے عہدے کی تقرری کے لئے ہونے والے انٹرویو میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ سرچ کمیٹی وائرس چانسلر کشمیر یونیورسٹی پروفیسر طلعت احمد کے زیر نگرانی کام کر رہی ہے ۔موصولہ تفصیلات کے مطابق بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں محمد اصغر غازی کے ہاتھوں بڑے پیمانے پر مالی خرد برد اور رشوت ستانی کی خبریں گزشتہ دو تین ماہ سے نہ صرف جموں کشمیر کے تمام اخبارات اور نیوز چینل میں موضوع بحث رہی ہیں بلکہ ملک بھر میں پرنٹ میڈیا اور سوشل نیٹ ورکنگ پر نیز علمی اداروں میں اس حرکت کی سرزنش کی جا چکی ہے۔ذرائع کے مطابق موصوف کو بغیر کسی سلیکشن کمیٹی کی تشکیل کیاس سے پہلی والی انتظامیہ بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی نے مستقل طور پر تعینات کیا گیا تھا… جو کہ یو جی سی کے قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ موصوف پروفیسر کے عہدے کے لئے بنیادی اہلیت کے متحمل بھی نہیں تھے لیکن یونیورسٹی کے اولین وائس چانسلرکے دور میں یہ سب تقرریاں عمل میں لائی گئیں… جن کی ابھی تک چھان بین جاری ہے ۔ اس سلسلے میں سماج کے حساس اور ذمہ دار افراد نے کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ معطل شدہ شخص کو وائس چانسلر کے عہدے کے لئے انٹرویو میں دعوت خود اس اعلیٰ ٰو عظیم عہدے کے ساتھ کھلواڑ ہے اور ایک بے ہودہ مزاق ہے .انہوں نے کہا کہ ان حقائق کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ وائس چانسلر کی تقرری کے عمل میں کہیں نا کہیں کوئی گڑبڑ ہے اور جانبدارانہ طریقہ کار اپنایا جا رہا ہے ۔ذرائع کے مطابق اس اسامی کے لئے نہایت مناسب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور با وقار امیدواروں کی درخواستوں کو ردکرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جو سراسر ناانصافی ہے
اس سلسلے میں انہوں نیلفٹنٹ گورنر جموں کشمیر سے مخلصانہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملہ کی تحقیقات کیلئے حکم جاری کیا جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورا ہوسکیں گے اور ملکی سطح پر اعلیٰ تعلیمی اداروں کا وقار بلند رہے
Comments are closed.