کرونا وائرس نے کہاں جنم لیا؟؛ڈبلیو ایچ او کے ماہرین جاننے کے لیے چین جائیں گے
سرینگر/10جولائی: عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ایک ٹیم کرونا وائرس کی تحقیقات کے لیے چین کے دارالحکومت بیجنگ جائے گی جہاں وائرس کی ابتدا اور اس کے پھیلنے کی وجوہات کا پتہ لگایا جائے گا۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے ماہرین یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کرونا وائرس کی ابتدا کیسے اور کہاں سے ہوئی جس کے بعد وہ اپنی سفارشات پیش کریں گے۔ڈبلیو ایچ او کے ماہرین کی ٹیم میں وبائی امراض کے ماہر اور جانوروں کی صحت کے ماہر شامل ہوں گے جو دو روز تک بیجنگ میں قیام کریں گے۔سی این آئی مانیٹرنگ کے مطابق دنیا بھر میں اب تک کرونا وائرس سے پانچ لاکھ 57 ہزار سے زیادہ افراد ہلاک اور ایک کروڑ 20 لاکھ سے زیادہ متاثر ہو چکے ہیں۔ تاہم اب تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے اس وبا نے کہاں سے جنم لیا تھا۔امریکی خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق عالمی تنظیم کے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ماہرین یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کرونا وائرس جانوروں سے انسان میں کس طرح منتقل ہوا اور سب سے پہلے اس وائرس نے کہاں جنم لیا۔سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کرونا وائرس چمگادڑوں سے دیگر جانوروں میں پھیلا جس کے بعد یہ گزشتہ برس کے اواخر میں چین کے شہر ووہان کی ایک مارکیٹ سے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔دوسری جانب امریکہ نے الزام عائد کیا تھا کہ یہ وائرس چین کی لیبارٹری سے دنیا بھر میں پھیلا ہے۔رواں برس مئی میں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی میں 120 سے زائد ملکوں نے مطالبہ کیا تھا کہ کرونا وائرس کی جنم بھومی کی تحقیقات کی جائے۔چین اس بات پر زور دیتا آیا ہے کہ عالمی ادارہ صحت کرونا وائرس پر اپنی تحقیقات ضرور کرے لیکن اس سے پہلے وبا پر قابو پا لیا جائے۔آخری مرتبہ عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کی ایک ٹیم نے فروری میں چین کا دورہ کیا تھا جس کی قیادت کینیڈا کے ڈاکٹر بروس ایلورڈ کر رہے تھے۔ڈاکٹر بروس نے اپنے دورے سے واپسی پر کرونا وائرس پر قابو پانے اور معلومات کے تبادلے پر چین کی کوششوں کو سراہا تھا۔ تاہم کینیڈا اور امریکہ کے حکام نے اْن پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈاکٹر بروس کا جھکائو چین کی طرف ہے۔امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی عالمی ادارہ صحت پر الزام عائد کر چکے ہیں کہ اس نے کرونا وائرس سے متعلق درست اور بروقت معلومات فراہم نہیں کیں۔صدر ٹرمپ ڈبلیو ایچ او کی فنڈنگ روکنے سمیت تنظیم کو خیر باد بھی کہہ چکے ہیں۔
Comments are closed.