جموں وکشمیر کی نئی میڈیا پالیسی؛اخبارات اور نیوز چینلوں پر نگرانی کیلئے انتظامیہ کو اختیارات تفویض

سرینگر 11 جون / کے این ٹی / جموں وکشمیر انتظامیہ نے نئی میڈیا پالیسی کا اعلان کیا ہے، جس کے تحت اب یونین ٹریٹری کی انتظامیہ ہی طے کریگی کہ کون سی خبریں ‘فرضی،غیر اخلاقی یاملک مخالف’ ہیں۔دو جون کو جاری اس نئی میڈیا پالیسی کے تحت انتظامیہ فیک نیوز کے لیے ذمہ دارصحافیوں اورمیڈیا اداروں کے خلاف قانونی کارروائی کریگی، جس میں سرکاری اشتہارات پر روک لگانا اور ان سے متعلق جانکاریاں سلامتی ایجنسیوں کے ساتھ شیئر کرنا شامل ہے تاکہ آگے کی کارروائی ہو سکے۔کشمیر نیوز ٹرسٹ کے مطابق پچاس صفحات کی اس پالیسی، جو اکثرمیڈیا اداروں کو سرکاری اشتہارات دییجانے سے متعلق ہوتی ہیمیں کہا گیا ہے، ‘جموں وکشمیر میں نظم ونسق اورسلامتی سیمتعلق اہم خدشات ہیں، یہ سرحدپار سے حمایت یافتہ پراکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ ایسی حالت میں یہ بیحد ضروری ہے کہ امن و امان کوبگاڑنے والے غیر سماجی اور ملک دشمن عناصر کی کوشش کوناکام کیا جائے۔نئی پالیسی کے تحت سرکاری اشتہارات کے لیے لسٹ کرنے سے پہلے اخباروں کے پبلشرز، مدیران اور اہم اسٹاف کے پس منظر کی جانچ لازمی کر دی گئی ہے۔اس کے علاوہ کسی بھی صحافی کومنظوری دیے جانے سے پہلے جموں وکشمیر پولیس کی سی ا?ئی ڈی کے ذریعے اس کا سیکورٹی کلیرنس ضروری ہوگا۔ ابھی تک ریاست میں اس طرح کا کلیرنس صرف کسی اخبار کے آراین ا?ئی کے رجسٹریشن سے پہلے کیا جاتا ہے۔نئی پالیسی کیمطابق سرکار اخباروں اور دوسرے میڈیا چینلوں میں شائع مواد کی نگرانی کریگی اور یہ طے کریگی کہ کون سی خبر ‘فیک، اینٹی سوشل یا اینٹی نیشنل رپورٹنگ’ ہے۔ ایسے کاموں میں شامل پائے جانے پر نیوز اداروں کو سرکاری اشتہارات نہیں دییجا ئیں گے، ساتھ ہی ان کے خلاف قانونی کارروائی بھی کی جائیگی۔پالیسی دستاویز کے پیج نمبر آٹھ اور نو میں کہا گیا ہے کہ ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز (ڈی آئی پی آر)فیک نیوز،سرقہ اورغیر اخلاقی اورملک مخالف سرگرمیوں کے لیے پرنٹ، الکٹرانک اور میڈیا کے دوسرے وسائل میں موادکی جانچ کریگا۔نئی پالیسی کے مطابق کوئی بھی فیک نیوزیا نفرت پھیلانییافرقہ وارانہ ہم ا?ہنگی بگاڑنے والی کسی بھی خبر پر ا?ئی پی سی اور سائبر قوانین کے تحت کارروائی کی جائیگی۔’یہ پالیسی دستاویزصحافیوں کے بارے میں کہتا ہے اسی طرح صحافیوں کو منظوری دیتیوقت یا اس کے حتمی فارمیٹ میں ہرصحافی کے پس منظر کی گہرائی سیجانچ کی جائیگی۔ اس مقصد کے لیے صحافیوں کو منظوری دینے کی گائیڈلائنس میں ترمیم کیا جائیگا اور ضرورت کے مطابق اس کو اپ ڈیٹ کیا جائیگا۔ہندوستان میں میڈیا پریس کاؤنسل اور نیوز براڈکاسٹنگ اسٹینڈرڈس اتھارٹی کے ذریعے اکثرسیلف ریگولیٹ ہی کام کرتا ہے۔ جموں وکشمیر سے پہلے صرف ہریانہ میں پرنٹ میڈیا اشتہارپالیسی کے گائیڈ لائن میں ایسا کہا گیا ہے کہ اگر کوئی اخبار کو پریس کاؤنسل یا ریاستی حکومت کے ذریعے کسی طرح کی غیر اخلاقی یاملک مخالف سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا تو اس کااشتہاری رجسٹریشن رد کر دیا جائیگا۔صحافیوں کوایکریڈیشن دینے کے لیے ریاستوں کے اپنے اپنے ضابطے ہیں، لیکن کسی میں بھی ‘بیک گراؤنڈ چیک’ کئے جانے کی پہلے سے شرط نہیں ہے۔گزشتہ کچھ وقتوں میں جموں وکشمیر کے کئی صحافیوں کو ان کے کام کے لیے پولیس کارروائی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان میں فوٹوگرافر مسرت زہرا اورصحافی -قلمکارگوہر گیلانی شامل ہیں، جن پر ان کی سوشل میڈیا پوسٹس کے لیے یو اے پی اے کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔پولیس نے ایک نیوز رپورٹ کو لیکر دی ہندو پر کیس درج کرتے ہوئے اور اس کے سرینگرنامہ نگار پیرزادہ عاشق کو سمن بھی جاری کی تھی۔

Comments are closed.