4جی انٹرنیٹ پر مسلسل پابندی سے اہلیان وادی کے علاوہ یہاں تعینات فوجی بھی پریشان

اپنے گھر والوں اور بچوں سے ووڈیو کال کے ذریعے بات کرنے میں آرہی ہے دشواریاں

سرینگر:4جی انٹرنیٹ پرپابندی کی وجہ سے جہاں اہلیان وادی کو شدید مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے وہیں پر جموں کشمیر میں تعینات لاکھوں فوجیوں کو بھی پریشانی ہورہی ہے خاص کرکوروناوائرس کی وجہ سے جاری خوف و دہشت سے جوجھ رہے اپنے اہل وعیال اور گھر والوں سے ویڈیو کالنگ کے ذریعے ان کی خیر و عافیت دریافت نہیں کرسکتے ۔ ادھر مرکزی سرکار اور ریاستی ایل جی انتظامیہ اپنے ہی دھن میں مگن رہ کر 2جی سپیڈ پر انٹر نیٹ چالورکھ کر سمجھتے ہیں کہ اس سست رفتار نیٹ سے لوگوں کے سارے کام ہوجاتے ہیں ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق جموں کشمیر میں گذشتہ برس ماہ اگست سے تیز رفتار انٹرنیٹ پر پابندی عائد ہے جبکہ وقت وقت پر سست رفتار انٹرنیٹ میں توسیع کی جاتی ہے ۔ تیز رفتار انٹرنیٹ کی عدم دستیابی کی وجہ سے اگرچہ جموں کشمیر کے عام لوگوں کو سخت ترین مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔ وہیں پر یہاں تعینات فوج اور نیم فوجی دستوں سے وابستہ دس لاکھ سے زائد افراد بھی انٹرنیٹ کی عدم دستیابی سے پریشان ہے کیوں کہ اس وقت عالمی سطح پر کوروناوائرس کی وجہ سے لوگ خوف و دہشت میں مبتلاء ہوچکے ہیں اس صورتحال سے ہر کوئی پریشان ہے جبکہ یہاں پر تعینات لاکھوں فوجیوں کے اہلخانہ بھی اس پریشانی سے جوجھ رہے ہیں جن کی خیر و عافیت سے اگرچہ فون پر فوجی اہلکار معلوم کرتے ہیں لیکن وویڈیوکالز کے ذریعے اپنے بال بچوں سے بات کرنے سے قاصر ہے جو ان کےلئے انتہائی دکھ کی بات ہے ۔ سی این آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے سریش چندر جو کہ سی آر پی ایف سے وابستہ ہے اور سرینگر میں تعینات ہے نے اس ضمن میں کہا کہ ہم یہاں گذشتہ برس 5اگست کے بعد آئے تھے اور تب سے ایک ہی بار گھر جانے کا موقعہ ملا جبکہ میری دو برس کی چھوٹی بچی اور ایک لڑکا ہے جن سے اگرچہ فون پر تو روز بات ہوتی ہے لیکن ویڈیو کال کے ذریعے ان کو دیکھنے کا جی کرتا ہے لیکن انٹرنیٹ کی سست رفتاری سے ایسا ممکن نہیں ہورہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ کوروناوائرس کی وبائی جب سے پھیل گئی ہے تب سے میرے گھر والے بھی سخت پریشان ہے اور مجھے ہر بار ویڈیو کال کے زریعے بات کرنے پر زور دیتے ہیں تاکہ وہ خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں کہ ہم یہاں پر ٹھیک ہوں لیکن کئی بار کوشش کی لیکن 2جی سپیڈ پر ایسا ممکن نہیں ہوپارہا ہے ۔ (سی این آئی )

Comments are closed.