شاہین باغ میں احتجاجی مظاہروں کے دوران نوزائیدہ بچی کی موت

سپریم کورٹ کی اظہار برہمی ، مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹانے پر حکومت کو نوٹس جاری

سرینگر/10فروری/: دہلی کے شاہین باغ علاقے میں سی اے اے کے خلاف جاری احتجاجی مظاہرے کے دوران چار ماہ کی بچی کی موت کے معاملے پر سخت رخ اختیار کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ نے مرکزی اور دہلی حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔سی این آئی مانیٹرنگ کے مطابق مظاہرین کو شاہین باغ سے ہٹانے کے معاملے میں بھی دو دیگر درخواستوں پر دوسرے بینچ نے مرکزی حکومت، دہلی حکومت اور دہلی پولیس کو نوٹس جاری کیا ہے اور ایک ہفتے میں جواب طلب کیا ہے۔چیف جسٹس شرد اروند بوبڈے، جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس سوریہ کانت کی بینچ نے قومی بہادری ایوارڈ سے نوازی گئی لڑکی جین سداورتے کے خط کا از خود نوٹس لیتے ہوئے اس معاملے کی سماعت کی اور احتجاجی مظاہرے میں چار ماہ کی بچی کی جان جانے پر تلخ تبصرہ کیا۔چیف جسٹس نے کہا کہ کیا چار ماہ کی بچی مظاہرے میں حصہ لینے گئی تھی۔ مرکز کی جانب سے پیش سالیسیٹر جنرل تشار مہتا نے کہا کہ یہ بے حد بدقسمتی کی بات ہے کہ چار مہینے کی بچی کی موت ہوئی ہے۔سماعت کے دوران ہی شاہین باغ کی تین خواتین نے بھی اپنا موقف رکھنے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کے بچوں کو اسکول میں پاکستانی کہا جاتا ہے۔ اس پر، جسٹس بوبڈے نے کہا کہ ‘ہم اس وقت این آر سی، این پی آر اور سی اے اے کے سلسلے میں یا کسی بچے کو پاکستانی کہا گیا، اس موضوع پر سماعت نہیں کررہے ہیں۔خواتین کی جانب سے غیر ضروری بحث کئے جانے پر جسٹس بوبڈے نے کہا کہ ہم ممتا کا احترام کرتے ہیں۔ ہم کسی کی آواز نہیں دبا رہے ہیں لیکن سپریم کورٹ میں بے وجہ کی بحث نہیں کریں گے۔انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کے سامنے یہ موضوع نہیں ہے کہ کسی بچے کو اسکول میں پاکستانی کہا گیا یا کچھ اور، یہ نوزائیدہ بچی کی موت کا بے حد حساس معاملہ ہے اور وہ صرف اسی مسئلے پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ عدالت نے مرکز اور دہلی حکومت کو نوٹس جاری کر کے چار ہفتے کے اندر جواب دینے کو کہا ۔

Comments are closed.