آنے والے انتخابات ریاست کی خصوصی پوزیشن کے دفاع کیلئے انتہائی اہم
سرینگر/29جنوری: آنے والے الیکشن میں نیشنل کانفرنس کو بھرپور طریقے سے شرکت کرنی ہے کیونکہ یہ الیکشن نہ صرف تعمیر و ترقی کیلئے ہوگا، نہ صرف نوجوانوں کے روزگار کیلئے ہوگا، نہ صرف کالے قوانین کو ہٹانے ہوگا بلکہ یہ الیکشن دفعہ35اے اور دفعہ370کے دفاع کیلئے انتہائی اہمیت کا حامل ہوگا۔ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے رٹھسونہ بیروہ میں پارٹی کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ ’’ہمیں آنے والے انتخابات میں زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ یہ الیکشن جتنا تعمیر و ترقی اور روزگار کا ہوگا اُتنا ہی 35اے کے دفاع اور ریاست میں دوبارہ امن اور بھائی چارے کی علم کو بلند کرنے کیلئے ہوگا۔ یہ الیکشن آر ایس ایس کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے ہوگا۔ ان لوگوں نے ریاست میں زہر ڈالا ہے، چاہے وہ جموں ہو، کشمیر یا لداخ ہو۔‘‘عمر عبداللہ نے کہا کہ ’’بدقسمتی سے آر ایس ایس اور ان کے آلہ کار آج بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں، یہ لوگ آج بھی کوشش کرتے ہیں کہ اس ریاست کا بٹوارہ ہو، حکومت ان کی ہے نہیںلیکن یہ کوشش کررہے ہیں کہ کسی طرح راج بھون کے ذریعے ریاست کا نقشہ بدل ڈالیں، اسی لئے ہم گورنر صاحب کو بار بار یہ یاد دلاتے ہیں کہ آپ عوام کے چُنے ہوئے نمائندہ نہیں، آپ دلی کے نمائندے ہو، یہاں جو بڑے بڑے فیصلے لینے ہونگے وہ لوگوں کے چُنے ہوئے نمائندے لیں گے۔‘‘انہوں نے کہا کہ 35اے کو بچانا، نئے ڈویژن بنانا، نئے اضلاع بنانا، خطوں کو خصوصی مراعات دینے جیسے بڑے بڑے فیصلے آج راج بھون کے اختیار نہیں، یہ دائرہ اختیار لوگوں کے چُنے ہوئے نمائندوں کو ہوتا ہے وہ وہی لوگوں کی اُمنگوں اور احساسات کے مطابق فیصلے لے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ’’لوگ بھی اب عوامی حکومت چاہتے ہیں اور اس کیلئے الیکشن جلدی ہونے چاہئیں، انتظار میں کوئی فائدہ نہیں اور نہ ہی ریاست کو فائدہ ہے۔ جموںوکشمیر کے عوام آنے والے انتخابات میں نیشنل کانفرنس کی بھر پور شرکت دیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے پنچایتی اور بلدیاتی الیکشن نہیں لڑا اُس کی حالت آپ کے سامنے ہے، ترال کا سرپنچ جموں میںہے، کولگام اور شوپیان کے کارپورٹر دلی میں بیٹھے ہیں۔ گورنر صاحب فیصلہ کرتے ہیں کہ کس کو اُٹھانا ہے اور کس کو بٹھانا ہے۔ نیشنل کانفرنس کی عدم شرکت سے غلط لوگ سامنے آگئے، سرینگر میونسپل کونسل کا حال دیکھئے، آئے روز کچھ نہ کچھ نیا دیکھنے اور سُننے کو ملتا ہے، یہاں تک کہ ایک دوسرے کو زخمی بھی کیا جارہا ہے۔ جس دن شہر برفباری کے بعد پانی میں ڈوبا ہوا تھا یہ لوگ آپ کی لڑائی میں لگے ہوئے تھے۔ہم نہیں چاہتے ہیں کہ آنے والے الیکشن میں یہ حال ہو۔‘‘ مرکز میں براجمان بھاجپا کو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں اڑچن قرار دیتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہاکہ ’’ہم اس کوشش میں ہے کہ جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کی مضبوط حکومت بنے اور چاہتے ہیں کہ مرکز میں بھی حکومت تبدیل ہو کیونکہ بھاجپا نے بات چیت کے تمام دروازے بند رکھے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بات چیت کی وکالت کی ہے چاہئے وہ پاکستان کیساتھ ہو یا اندرونی سطح پر۔ ہمارا موقف رہا ہے کہ بندوق کے ذریعے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔‘‘جموں وکشمیر میں مضبوط حکومت کے قیام کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر نے کہا کہ 2008میں ہمیں کانگریس کی حمایت کی ضرورت پڑی پھر پی ڈی پی نے 2014میں بھاجپا کا ساتھ حاصل کیا اور ریاست کی حالت آج آپ کے سامنے ہے۔ ہم لنگڑی حکومت نہیں چاہتے، ہمیں اپنی حکومت چاہئے، ہم چاہتے ہیں کہ ریاست کی ایک آواز ہو اور اس آواز میں وزن ہو۔بیروہ میں تعمیر و ترقی کا ذکر کرتے ہوئے عمر عبداللہ نے کہا کہ میں نے اپوزیشن میں رہ کر یہاں بحیثیت ایم ایل اے کام کیا اور میں چاہتا ہوں کہ اب حکومت میں رہ کر بھی بیروہ کی نمائندگی کروں اور اس انداز سے کروں کہ اگلے الیکشن کے وقت میرے ساتھیوں کے پاس کرنے کیلئے کوئی شکایت نہ ہو۔بہت حد تک کام کرنے کے باوجود یہاں پانی کی قلت آج بھی ہے، ہسپتال ہے لیکن ڈاکٹروں کی کمی ہے، سکول ہے لیکن عمارت نہیں بن پارہی ہے، کہیں سکول کا درجہ بڑھانا باقی رہ گیا ہے، بہت ساری سڑکوں کی تعمیر اور تارکول بچھانا ہے، بجلی کی قلت کا یہاں کے لوگوں زبردست سامنا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ حکومت میں رہ کر یہاں کے لوگوں کے یہ مشکلات دور کرسکوں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بیروہ میں بجلی کے نظام کی بہتری کیلئے 50کروڑ کی لاگت کا پروجیکٹ منظور کروایا لیکن افسوس کی بات ہے کہ سیاسی انتقام گیری کی بنیاد پر اس پروجیکٹوں پر عدالت سے حکم امتناع لایا گیا اور سابق پی ڈی پی بھاجپا حکومت نے اس امتناع کو ختم کرنے کیلئے ذرا سی بھی سنجیدگی نہیں دکھائی۔
Comments are closed.