سرینگر/13جنوری /سی این آئی/ بینائی سے محروم نوجوان نے اپنے لگن اور اپنے کنبہ کی مدد سے باالآخر’اسسٹنٹ پروفیسر ‘بن ہی گیا۔ یہ کہانی جنوبی کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے نوجوان کی ہے جس نے آنکھوں کی روشنی سے محروم ہونے کے باوجود ہمت و حوصلہ کی بینائی سے کامیابی حاصل کی ۔ کرنٹ نیو آف انڈیا کے مطابق انسان کو دنیا میں اللہ تعلیٰ نے اشرف المخلوقات بناکر بھیجا یعنی تمام مخلوقات سے افضل انسان نے ، انسان ایسا کرسکتا ہے جو باقی مخلوقات نہیں کرسکتی ، سخت سے سخت امتحان کو بھی پاس کارسکتا ہے اور کٹھن سے کٹھن مراحل کو بھی طے کرسکتا ہے اس کیلئے صرف ہمت اور حوصلہ کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ ہونا چاہئے ۔ طارق بشیر ولد بشیر احمد نے کسی مخصوص آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے محض 8برس کی عمر میں آنکھوں کی بینائی کھو دی ۔ طارق کے مطابق اُس وقت لوگ کہہ رہے تھے کہ میں زندگی میں اب کچھ نہیں کرسکتا اور میری زندگی بیکار ہوچکی ہے لیکن آج میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ’’ہمت کرے انسان تو کیا کام ہے مشکل‘‘طارق نے کہا کہ جنم کے وقت وہ ‘Retinitis pigmentosa’، نامی بیماری سمیت پیدا ہوا اور جس کی قدر عمر بڑھتی گئی آنکھوں کی بیمانی متاثر ہوتی گئی باالآخر آٹھ برس کی عمر میں وہ روشنی سے محروم ہوگیا ۔ طارق بشیر خان ولد بشیر احمد خان ساکنہ انڈورہ شانگس اسلام آباد کا رہنے والا ہے ۔ اور ان کے والدین نے ریاست اور بیرون ریاست طارق کا علاج کرایا لیکن اس کی روشنی واپس نہیں آئی جس کے بعد طارق نے اس کو اپنا مقدر مانکر زندگی میں آگے بڑھنے کی ٹھان لی ۔ طارق کے وادل بشیر احمد اور ان کے برادر فاروق احمد نے ان کی تعلیم جاری رکھنے میں اس کی مدد کی ۔ طارق نے کہا کہ میرا وادل اور برادر میری کتابیں میرے سامنے بلند آواز سے پڑھتے تھے جس کو میں ذہن نشین کرتا رہتا اس کے ساتھ ساتھ اہم سوالات اور ان کے جوابات کو بھی میرے والد بھائی اور میرے کچھ دوست میرے لئے دہراتے تھے جس دوران کئی اہم سوالوں اور ان کے جوابات کو ’’ٹیپ ریکارڈر‘‘پر ریکارڈ کرتے جارہے تھے ۔ جن کو میں بار بار سن کر یاد کرتا رہتا تھا ۔اس طرح سے طارق نے دسویں جماعت کا امتحان اچھے نمبرات کے ساتھ پاس کیا۔ اس کے بعد گیارہویں میں مزید علاج و معالجہ کیلئے بیرون وادی جانا پڑا جس میں کافی وقت نکل گیا ا سکے ساتھ ساتھ ان کے بھائی کے امتحانات کے پیش نظر طارق اپنی تعلیم کی طرف دھیان نہ دے پائے اور اس بیچ چار سال کا وقفہ چلا گیا ۔ طارق کے مطابق انہوںنے 2103میں بارہمویں جماعت کا امتحان میں کامیابی حاصل کی اور آگے تعلیم جاری رکھنے اور زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ان کو ’’ریڈیو کے ایک پروگرام ’’اکھشر اکھنڈے‘‘پنجابی پروگرام جو خاص طور پر نابینائوں کیلئے نشر ہوتا تھا سے تحریک حاصل کرکے آگے تعلیم جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔انہوںنے کہا کہ 2006میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد انہوںنے ایم اے کیلئے داخلہ لیا جبکہ اس دوران انہوںنے کے اے ایس کیلئے بھی داخلہ لیا تاہم پی ایس سی کی جانب سے انہیں کے اے ایس امتحان میں شامل ہونے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے این ای ٹی ،ایس ایل ای ٹی ٹسٹ پاس کئے اور لچکرار پوسٹ کیلئے انٹر ویو میں کامیابی حاصل کی ۔ طارق کو بطور پروفیسر ہائر سیکنڈر ی سکول جو کہ ان کے آبائی علاقہ میں ہی واقع ہے میں تعینات کیا گیا تاہم سکول کے پرنسپل نے انہیں سکول جوائن کرنے کی اجاز ت نہیں دی تاہم اُس وقت کے ڈائریکٹر ایجوکیشن کی مداخلت کے بعد ہی ان کو ڈیوٹی جوائن کرنے کی اجازت ملی ۔ اور وہ ڈائٹ اننت ناگ میں تعینات کے گئے جہاں انہوںنے اپنی قابلیت اور بہتر لیچکرر کے طور پر اپنے آپ کو پیش کیا ۔ طارق کے والد جو خود بھی سبکدوش ہیڈ ماسٹر ہیں اور ان کے برادر ایک ٹیچر جنہوںنے زندگی کے سفر میں ان کی مدد کی اور ان کو کامیابی سے ہمکنار کرایا۔ طارق آج شادی شدہ ہے اور ان کے ہاں دو بچے بھی ہیں ان کا کہنا ہے کہ ’’ دنیا میں آئے ہیں تو جینا ہی پڑے گا ’’جیون ہے اگر زہر تو پینا ہی پڑے گا،مالک ہے تیرے ساتھ غم سے نہ ڈر تو اے دل،ہمت کرے انسان تو کیا کام ہے مشکل ‘‘
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.
Comments are closed.