جنوبی کشمیر کے دور دراز علاقوں میں قائم سرکاری سکولوں کا حال بے حال ; سکولوں میں طلبہ کی تعداد 2سے تین سو کے قریب ، اساتذہ محض 5سے 8

سرینگر/06مارچ/سی این آئی// جنوبی کشمیر کے بالائی اور دور دراز علاقوں میں قائم سرکاری سکولوںمیں طلبہ کی تعداد 200سے 250کے قریب ہونے کے باوجود ان سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی تعداد 3سے چار ہوتی ہے جبکہ جنوبی کشمیر کے ہی ٹاونوں میں قائم سرکاری سکولوںمیں طلبہ کی تعداد 4سے 10تک ہے اور یہاں اساتذہ بھی 8سے دس ہیں جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ محکمہ ایجوکیشن سرکاری سکولوں کی طرف کس طرح عدم توجہی کا مظاہرہ کررہا ہے ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق جنوبی کشمیر کے بالائی علاقوں جن میں مڈل سکول منزمو جہاں پر سکولی بچوں کی تعداد آٹھ کلاسوں میں 200سے تین سو کے قریب ہے اور یہاں پر اساتذہ کی تعداد 4بتائی جارہی ہے ۔ اس کے علاوہ لامڈ ہائی سکول جہان پر سکولی بچوں کی تعداد 200سے زائد ہے اور یہاں پر اساتذہ 6ہیں ۔ دور دراز علاقوں میں پرائیویٹ سکول نہ ہونے کے برابر ہے جس کے نتیجے میں یہاں پر قائم سرکاری سکولوں میں غریب بچوں کی تعداد کافی ہوتی ہے اور مڈل سکول جس میں 8کلاس ہوتے ہیں سینکڑوں بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں تاہم ان سکولوں می اساتذہ کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔ دوسری جانب جنوبی کشمیر کے ٹائونوں میں جو کہ اننت ناگ، کولگام اور دیگر جگہوں پر پرائیویٹ سکولوں کی بھر مار ہے وہاں پر سرکاری سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابرہ ہوتی ہے اور ایسے سکولوں میں طلبہ کی تعداد 6سے دس ہے اور ان سکولوںمیں اساتذہ کی تعداد بھی دس ہوتی ہے ۔ جو دن دن بھر اخبار بینی اور سیاست پر تجزیہ کرتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں ۔ ادھیر سی این آئی کو ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اساتذہ سے غیر تدریسی عملے کا کام بھی لیا جاتا ہے ۔ جنوبی کشمیر کے مختلف زونل ایجوکیشن دفتروں میں تعینات کلرک ان اساتذہ کو دفتروں میں رہنے پر مجبور کرتے ہیں جو مختلف سکولوں سے یہاں اٹیچ کئے جاتے ہیں ۔ان اٹیچ کئے گئے اساتذہ کو اگر دور دراز سکولوں میں تعینات اگر کیا جاتا تو ان سکولوں میں زیر تعلیم بچوں کا مستقبل بھی روشن ہوتا ۔دور دراز سکولوں میں طلبہ کی تعداد سینکڑوں میں ہونے اور اساتذہ کی تعداد نہ ہونے پر محکمہ ایجوکیشن کی طرف سے سرکاری سکولوں کے تئیں عدم توجہی کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ تدرسیلی عملہ کو غیر تدریسی کام پر لگانا اپنے آپ میں ان کے ساتھ ناانصافی ہے تاہم اس طرح محکمہ ایجوکیشن کی جانب سے کم ہی توجہ دی جاتی ہے ۔

Comments are closed.