جموں کشمیر کی سرحدی عوام جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کے فیصلے پر خوش ؛ سرحدی علاقوں میں رُکے پڑے تعمیراتی کوموں کو دوبارہ شروع کرنے کا مطالبہ
سرینگر/06مارچ: جموں کشمیر کے سرحدی عوام نے ہندوپاک کے درمیان سرحدوں پر قیام امن کیلئے جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کے فیصلے پر خوشی کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب سرحدی عوام اپنے کھیتوں میں جاکر بے خوف کام کرسکیں گے اور راتوں کو سکون کی نیند سوکیں گے ۔ انہوںنے کہا ہے کہ جنگ بندی معاہدے پر اب ہمیشہ عمل کیا جانا چاہئے جو کہ دونوں ممالک کے مفاد میں ہوگا۔اس دوران سرحدی عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ ہند وپاک افواج کے مابین گولہ باری کے نتیجے میں جو تعمیراتی سرگرمیاں روک دی گئی تھیں ان کو دوبارہ شروع کیا جائے ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق جموں کشمیر کے سرحدی علاقوں کے عوام نے ہندوپاک کے درمیان جنگ بندی معاہدے پر عمل کرنے کے فیصلے پر خوشی کااظہار کیا ہے ۔ وادی کشمیر کے سرحدی اضلاع بارہمولہ کے اوڑی، کپوارہ کے ٹنگڈار، کرناہ ، کیرل اور بانڈی پورہ کے گریز علاقوں کے علاوہ صوبہ جموں کے پونچھ، مینڈھر، راجوری، بالاکوٹ ، نوشہرہ ، سانبہ ، اکھنور ، اور دیگر سرحدی علاقوں کے عوام نے ہند پاک کے سربراہان کی طرف سے کنٹرول لائن پر فائر بندی معاہدے کرنے پر سرحدی علاقہ کی عوام نے خوش آئندہ فیصلہ قرار دیا ہے اس سے کم از کم سرحدی علاقہ میں بسنے والی عوام چین اور سکون کے ساتھ سوئے گی اور وقت پر اپنے معصوم بچوں کھانا کھلائے گی۔انھوں نے کہا کہ گولہ باری کے دوران پوری سرحدی پٹی پر بسنے والی عوام کے دلوں میں ڈر اور خوف کا ماحول پایا جاتا تھا جس کی وجہ سے ہر آدمی ہر وقت پریشان رہتا تھا کہ نہ جانے کس وقت گولہ باری شروع ہو جائے گی۔انھوں نے کہا کہ اس دوران ڈر کے ماحول میں ہمارے بچے اچھی تعلیم بھی حاصل کرنے سے محروم رہے اور نہ ہی وقت پر سکون کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ان کے دل و دماغ میں چوبیس گھنٹے ایک ڈر کا ماحول بنا رہتا تھا۔انھوں نے کہا کہ دونوں ملکوں نے کنٹرول لائن پر جو فائر بندی کی ہے۔اس سے سرحدی علاقہ میں بسنے والی عوام میں ایک خوشی کی لہر پیدا ہوئی ہے۔انھوں نے کہا کہ گولہ باری کی وجہ سے بہت سارے تعمیر ی کام رکے ہوئے تھے۔تعلیمی نظام بھی بری طرح متاثر تھا۔انھوں نے کہا کہ سرحدی اضلاع کی80فیصد آبادی سرحد کے قریب آباد ہے جہاں پر اگر تعمیر و ترقی کی بات کی جائے کہ بہت ساری پنچائت ایسی ہیں کہ جن کے اندر سرکار کی جانب سے ابھی تک پختہ بنکر تعمیر نہ کئے گئے ہیں اور سرحدی علاقہ میں بہت سارے سکول ایسے ہیں کہ جن کی عمارت کی خستہ حالت ہے جس کی وجہ سے زیر تعلیم طلبہ کو کھلے آسمان تلے بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنی پڑ رہی ہے اور نہ ہی ان سکولوں کے نزدیک پختہ بنکر تعمیر کئے گئے ہیں۔انھوں نے کہا کہ بہت سارے سب سنٹر اور پرائمری ہیلتھ سنٹر کی عمارتوں کا کام کئی سالوں سے چل رہا ہے جو ابھی تک مکمل نہ ہوئی ہیںایک طرف سرکار کا یہ دعوہ ہے کہ ہم پنچائتوں کے ذریعہ سرحدی خطہ میں تعمیر و ترقی کا ایک نیا دور شروع کرکے وہاںپر بسنے والی عوام کو بر وقت تمام تر بنیادی سہولیات میسر کروائی جائیں گی لیکن بد قسمتی سرحدی خطہ کی عوام کی یہ ہے کہ یہ تمام وعدے زمینی سطح پر کھوکھلے ثابت ہو رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ متعددسرحد ی علاقوں کے ساٹھ فیصد پنچائتوں کے اندر مکمل طور پر پنچائت گھر ہی تعمیر نہ ہو سکے ہیں اور نہ ہی نیٹ ورک سہولیات دستیاب ہو سکی ہیں۔آج جب کبھی کبار عوام دہ ہوتی ہے تو پنچائتی نمائندگان و علاقائی عوام کو کھلے آسمان تلے بیٹھ کر مجبوراً عوام دہ کرانی پڑتی ہے۔اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب پنچائتوں کے اندر پنچائت گھر ہی مکمل نہیں ہیں تو پھر پنچائتوں کے ذریعہ تعمیر و ترقی کا نیا دور کیسے شروع ہو گا۔انھوں نے کہا کہ سالوں سے کئی لیفٹ سکیموں کا کام چل رہا ہے جو آج 2021چل رہا ہے۔ابھی تک مکمل نہ ہوا ہے جس کی وجہ سے اس سرحدی خطہ میں بسنے والی عوام کو کوسوں دور سے صاف پینے کا پانی لانا پڑتا ہے۔سرحدی عوام نے گورنر انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ سرحدی علاقہ میں تمام رکے ہوئے کاموں کو جلد مکمل کیا جائے تاکہ علاقہ میں بسنے والی عوام کو مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
Comments are closed.