محکمہ صحت کے بلند باگ دعوے کاغذی، سرکاری اسپتالوںمیںخاطر خواہ انتظامات نہیں ; وادی کشمیر میں طبی ادروں کے نظم و نسق اور ورک کلچر کو تبدیل کرنے کی ضرورت

سرینگر/20اکتوبر: وادی کشمیر میں سرکاری طبی اداروں کی حالت بہتر بنانے بیماروں کو سہولیات بہم پہنچانے کے حوالے سے سرکاری کے بلند بانگ دعووں کا کوئی اثر زمینی سطح پر کہیں نظر نہیں آرہا ہے۔جموں و کشمیر کے بڑے اور چھوٹے ہسپتالوں کی حالت دن بہ دن بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے اور بیماروں کو پہلے سے زیادہ مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے اور یہاں تک کہ حاملہ خواتین کے ساتھ بھی اسپتالوں میں نا شائستہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے ۔ ڈاکٹروں اور نیم طبی عملہ کے ورک کلچر اور بیماروں کے ساتھ ان کے ناروا سلوک کو تب تک بدلا نہیں جا سکتا ہے جب تک ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کا ضمیر خودبیدار نہیں ہوگا اور وہ اپنے پیشہ کے ساتھ انصاف نہیں کریں گے ۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق اگرچہ محکمہ صحت نے وادی کشمیر میں طبی ادروں کے نظم و نسق اور ورک کلچر کو تبدیل،کرنے ، ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کی ڈیوٹی کو یقینی بنانے کیلئے محکمہ صحت اور سرکار نے پچھلے تین برسوں کے دوراں سینکڑوں بار یقین دہانی کہ کہ ایسے ڈاکٹروں کو نوکری سے بر طرف کیا جائے گا جو دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی دینے سے انکار کر دیں ۔ کشمیر وادی میں جتنے بھی ہیلتھ اور پرائمری سینٹر مو جود ہیں ان میں کسی ایک کی حالت کو بھی اطمینان بخش قرار نہیں دیا جا سکتا ہے ،ایسے سرکاری ہسپتالوں کے دروازے اوٹ پیشنٹ ڈیپارٹمنٹوں کے 12بجے دن تک بند ہی رہتے ہیں اور دوپہر 12بجے کے بعد خاکروب یا درجہ چہارم کا کوئی ملازم ہی ان اسپتالوں کا دروازہ کھولتا ہے ۔ ستم ظریفی کا یہ عالم ہے کہ دور دراز علاقوں کے لوگوں نے متعدد بار طبی اداروں میں ڈاکٹروں کی عدم دستیابی اور نیم طبی عملے کی عدم موجودگی ، دوائیوں کی کمی اور ضروری ٹیسٹوں کی مشینوں کی تکنیکی خرابیوں کو ٹھیک کروانے کی طرف توجہ مبذو ل کروائی لیکن محکمہ صحت کے اعلیٰ افسروں پر ان عوامی شکایات کا کوئی اثر نہیں ہوا ،اور انہوں نے ان شکایات کو سنی ان سنی کر دیا ۔نتیجہ کے طور پرواد ی کے سرکاری ا سپتال ذبح خانوںمیں تبدیل ہوچکے ہیں ۔ڈاکٹروں کے لئے سرکاری طبی ادارے محض تجربہ گاہیں بن چکی ہیں جہاں وہ اپنی پیشہ ورانہ قابلیت بڑھانے کے لئے مبینہ طورپرمریضوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کرنے کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔دور دراز علاقوں میں تعینات مرد ڈاکٹر ، لیڈی ڈاکٹر یا تو اپنی ڈیو ٹیوں پر جاتے ہی نہیں ہیں اور اگر جاتے بھی ہیں تو وہ اسپتالوں سے قریبی فاصلے پر اپنے پرائیویٹ کلنک کھول دیتے ہیں اور اس طرح وہ اپنا زیادہ تر وقت پرائیویٹ کلنکوں پر ہی صرف کرتے ہیں اور ان پرائیویٹ کلنکوں پر وہ مریضوں کی جیبیں صاف کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں ۔۔ ستم ظریفی کا مقام ہے کہ کہ حاملہ خواتین کو اکثر وبیشتر لعل دیدہسپتال یا نرسنگ ہوموں اور پرائمری ہیلتھ سینٹروں میں تعینات لیڈی ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ انہیں وہ سہولیات دستیاب نہیں ہیں کہ وہ حاملہ خواتین کو زچگی کے وقت مناسب اور جدید طرز کی علاج و معالجہ کی سہولیات بہم رکھ سکیں۔محکمہ صحت کوزبانی جمع خرچی کرنے کی بجائے عملی اقدامات اُتھانے ہونگے ڈاکٹروں اور نیم طبی عملے کو اپنے پیشہ ورانہ خدمات اور فرائض خوش اسلوبی کے ساتھ اور با قاعدگی کے ساتھ انجام دینے کے پابند بنانا ہوگا دوائیوں اور دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جو روایتی طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے اس سے تبدیل کرنے کی فوری اور سخت ضرورت ہے ۔ بڑے اور چھوٹے اسپتالوں کی انتظامیہ کو جوابدہ بنانا ہوگا ۔اور بیماروںکو بہترعلاج معالجہ فراہم کیا جا سکتا ہے ۔

Comments are closed.