کورونا وائرس کے بیچ درس وتدریس کے آزمائے گئے تجربات فضول مشق ثابت
پارکوں یا گھروں میں بچوں کو پڑھانے کیلئے والدین کی آمادگی مشکل /اساتذہ ،تعلیم سے زیادہ بچوں کے صحت کو ترجیح /والدین
سرینگر /8ستمبر / کے پی ایس: عالمگیر وبائی بیماری کورونا وائرس کی وجہ سے جہاں صورتحال پریشان کن ہے وہیں تعلیم کا شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔زیر تعلیم بچوں کے مستقبل کو تاریک ہونے سے بچانے کے حوالے سے جس قدر والدین فکر مند ہیں وہیں محکمہ تعلیم بھی درس وتدریس معطل رہنے پر سنجیدہ ہے۔محکمہ ہذا نے لاک ڈاون یا ان لاک کے دوران نت نئے منصوبے ترتیب دیکر بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کی کوشش کی ۔تاہم محکمہ کی جانب سے ترتیب شدہ پروگرام کے مقاصد کئی وجوہات سے فوت ہوئے ۔شعبہ تعلیم نے اساتذہ کوگھر بیٹھے بچوں کو آن لائن کلاسز کے ذریعے پڑھانے کی ترغیب دی ۔لیکن ناقص انٹرنیٹ سہولیات کی وجہ سے بچے اس آن لائن پروگرام سے مستفید نہیں ہوسکے ۔اگر چہ کئی بچوں کے پاس انٹرنیٹ کی خاصی سہولیات میسر تھی تاہم کئی بچوں کے پاس موبائیل فون بھی دستیاب نہ ہونے سے ان کو کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔حالانکہ اساتذہ کرام آن لائن کلاسز کیلئے اپنے آپ کودستیاب رکھتے تھے ۔اگرچہ یہ ایک مثبت کوشش تھی تاہم سہولیات کی عدم دستیابی سے کوشش بھی زیادہ موثر ثابت نہیں ہوسکی ۔ذرائع کے مطابق مہلک وائرس کے بیچ بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے شعبہ تعلیم نے آن لائن کلاسز کے بعد کیمونٹی کلاسز کومتبادل تصور کیا تھا تاہم اس حوالے سے کوئی تحریری حکمنامہ جاری نہیں ہوا ہے بلکہ زبانی طور اساتذہ کو کیمونٹی کلاسز شروع کرنے کی ہدایت دی گئی تھی۔مختلف مقامات پر اساتذہ نے کیمونٹی کلاسز کے ذریعے درس وتدریس کا آغاز کیا تھا ۔لیکن اس دوران بھی کئی ایسے مسائل پیدا ہوئے ہیںجس سے یہ منصوبہ بھی خاص موثر ثابت نہ ہوسکا اور تحریری حکمنامہ جاری نہ ہونے کی وجہ سے اساتذہ بھی تذبذب کے شکار تھے ۔تعلیمی شعبہ کو مستحکم بنانے اور درس وتدریس کے عمل کو جاری رکھنے کیلئے چند روز قبل محکمہ ہذا نے IMPACTکے حوالے سے مرحلہ وار تربیتی پروگرام شروع کئے اور پانچ روزہ آن لائن تربیتی پروگرام ناقص انٹرنیٹ کی وجہ سے سو فیصد کارگرثابت نہیں ہوسکا ۔دوسرے مرحلے میں اساتذہ کو گھر گھر جاکر بچوں کو کسی پارک یا گھر میں درس وتدریس کیلئے بھیجنے پر والدین کو آمادہ کرنے کی ہدایت دی گئی ۔اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس نے کئی اساتذہ سے بات کی کہ پارک یا گھر میں درس وتدریس کے عمل کے حوالے سے آپ کے کیامشاہدات رہے اور اس کے کیا اثرات مرتب ہونگے تو انہوں نے کہا کہ ہم یہ کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں تاہم یہ بات طے ہے کہ والدین اس وبائی صورتحال کے دوران بچوں کو گھر سے باہر پڑھائی کیلئے بھیجنے کوتیار نہیں ہیں ۔کیونکہ یہ وبائی بیماری کسی بھی وقت کہیں بھی اپنے لپیٹ میں لے سکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اساتذہ ہر حال میں بچوں کو پڑھانے کیلئے کوشاں ہیں لیکن ایسے طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے جس سے بچے تعلیم بھی حاصل کرسکیں اورمعصوم طلبہ جان کی حفاظت بھی یقینی بن سکے ۔انہوں نے کہا کہ گھر گھر جاکر بچوں کے والدین آمادہ کرنے کی ذمہ داری سر آنکھوں پر ہے لیکن والدین اس صورتحال میں اساتذہ پر کس طرح بھروسہ کرسکیں گے ۔اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ محکمہ ہذا میڈیا کو بروئے کارلاکر والدین کو پوری جانکاری فراہم کریںکہ گھر یا پارک میں پڑھانیکے کیا مقاصد ہیں۔انہوں نے کہا کہ اساتذہ درس وتدریس کی ذمہ داری لینے کیلئے تیار ہیں تاہم بچوں کے تحفظ کے حوالے سے کافی فکر مند ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سرکاری دفتروں میں تعینات ملازمین کے ٹسٹ کرانے کے احکامات صادر کئے گئے تو طلبہ اور اساتذہ کیلئے ٹسٹ کرانے کی ضرورت کیوں نہیں ہے ؟ اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس نے بچوں کے کئی والدین سے بات کی کہ اساتذہ کو بچوں کی تعلیم کیلئے گھر گھر جانے کی ہدایت دی گئی ہے اور وہ بچوں کو کسی پارک یا گھر میں پڑھائیںگے۔تو انہوں نے کہا کہ وہ بچوں کی تعلیم کے حوالے سے کافی فکر مند ہیں لیکن ان کے پاس بچوں کی تعلیم سے ان کے صحت پر ترجیح ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ بچوں کو وبائی صورتحال میں کسی پارک میں جانے پرآمادہ نہیں ہونگے کیونکہ کیا معلوم پارک سے کوئی کورونامتاثر شخص گذرا ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ اگر شعبہ تعلیم کے افسران واقعی بچوں کی تعلیم کے تئیں سنجیدہ ہیںتو اس سے بہتر ہے کہ اسکول کھول دئے جائیں اور ایس او پیز کو اپناتے ہوئے درس وتدریس کاآغاز کیا جائے ۔انہوں نے کہا کہ درس وتدریس کا عمل پارکوںیا دیا رغیر سے اسکولوں میں ہی بہتر ہے کیونکہ اساتذہ یا منتظمین اسکولوں میں سینی ٹائزیشن کرانے میں متحرک رہ سکتے ہیں۔اس طرح درس وتدریس کے ساتھ ساتھ بچوں کے صحت کا تحفظ بھی یقینی بن جائے گا ۔۔
Comments are closed.