کشمیر میں لاک ڈائون کا ایک سال؛مقامی معیشت کو تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان
’دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر‘ کی رپورٹ میں انکشاف
سری نگر، 23 جولائی :جموں و کشمیر میں گذشتہ قریب ایک سال سے جاری لاک ڈائون کی وجہ سے مقامی معیشت کو تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے کا نقصان پہنچا ہے۔ یہ انکشاف ‘دی فورم فار ہیومن رائٹس ان جموں اینڈ کشمیر’ نامی تنظیم نے اپنی رپورٹ بعنوان ‘جموں و کشمیر: انسانی حقوق پر لاک ڈائونز کے اثرات اگست 2019 تا جولائی 2020’ میں کیا ہے۔ اکیس ممتاز بھارتی شہریوں پر مشتمل اس فورم کی سربراہی سپریم کورٹ آف انڈیا کے سابق جج جسٹس (ر) مدن بی لوکر اور سابق خاتون مذاکرات کار برائے جموں و کشمیر پروفیسر رادھا کمار کر رہے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مرکزی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے یکطرفہ فیصلے کی وجہ سے اہلیان کشمیر بھارت اور اس میں رہنے والے لوگوں سے کلی طور پر بیگانہ ہوگئے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں کام کرنے والے صحافیوں کو ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے کالے قانون ‘یو اے پی اے’ کے تحت مقدمے درج کئے جاتے ہیں۔ اس میں جموں و کشمیر حکومت کی نئی میڈیا پالیسی کو ‘آزاد میڈیا’ اور ‘اظہار رائے کی آزادی’ پر حملہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر میں نئے ڈومیسائل قوانین کے نفاذ، جن کے تحت غیر مقامی شہری بھی یہاں رہائش اختیار کر سکتے ہیں، نے اس یونین ٹریٹری میں بے روزگاری بڑھنے کے خدشات کو جنم دیا ہے۔اس تفصیلی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘کشمیر’ کئی طریقوں سے بھارت کی جمہوریت کے لئے لٹمس ٹیست تھا لیکن ہم اس میں بری طرح سے ناکام ہوچکے ہیں۔ ستہر صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ وادی کشمیر میں جاری مسلسل لاک ڈائون کا تعلیمی شعبے پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور سست رفتار ٹو جی موبائل انٹرنیٹ خدمات کے چلتے آن لائن کلاسز کا انعقاد ناممکن بن گیا ہے۔فورم نے اپنی تفصیلی رپورٹ میں بعض سفارشات بھی پیش کی ہیں جن میں سیاسی قیدیوں کی رہائی، متنازع پبلک سیفٹی ایکٹ میں ترمیم، نابالغوں کو تحفظ فراہم کرنے والے قوانین پر سختی سے عمل درآمد، صحافیوں اور دیگر کارکنوں کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام والے قانون کے تحت درج مقدمات کی واپسی اور تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ خدمات کی بحالی قابل ذکر ہیں۔جموں و کشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خاتمے کے بعد ‘بند’ کئے گئے ہیومن رائٹس کمیشن کی بحالی، نئی میڈیا پالیسی کی واپسی، تاجر طبقے کے لئے مالی پیکیج اور جنگجو مخالف آپریشنز کے دوران گرائے گئے رہائشی مکان مالکان کے لئے معاوضے کی سفارشات بھی رپورٹ میں پیش کی گئی ہیں۔رپورٹ میں کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اگست 2019 سے اب تک جموں و کشمیر کی معیشت کو تقریباً چالیس ہزار کروڑ روپے یعنی 5.3 ملین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے: ‘جنوری سے جولائی 2020 تک معیشت کو ہونے والے نقصان کا تخمینہ 22 ہزار کروڑ روپے یا 2.9 ملین ڈالر لگایا گیا ہے۔ کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے تخمینہ لگایا ہے کہ اگست 2019 سے جون 2020 تک ہونے والا نقصان 40 ہزار کروڑ روپے یا 5.3 ملین ڈالر ہے’۔رپورٹ میں کشمیری عوام کی بیگانگی پر کہا گیا ہے: ‘مرکزی حکومت کے پانچ اگست 2019 کے یکطرفہ فیصلے، جس کے تحت جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن ختم کی گئی، اس کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گیا اور یہاں سخت لاک ڈائون نافذ کیا گیا، کی وجہ سے اہلیان کشمیر بھارت اور اس میں رہنے والے لوگوں سے کلی طور پر بیگانہ ہوگئے ہیں’۔فورم میں جسٹس مدن بی لوکر اور پروفیسر رادھا کمار کے علاوہ سابق وائس ایئر مارشل (ر) کپل کاک، میجر جنرل (ر) اشوک کمار مہتا، جسٹس (ر) اجیت پرکاش شاہ اور نیشنل کانفرنس رکن پارلیمان جسٹس (ر) حسنین مسعودی جیسی ممتاز شخصیات شامل ہیں۔ یو این آئی
Comments are closed.