کروناوائرس سے متعلق ٹیسٹوں کی جانچ کیلئے کشمیر میں سہولیات بہم رکھی جائے/ ڈاکٹر نثارالحسن
سہولیات یہاں دستیاب ہونے سے متاثرین کے علاج میں دیرے نہیں ہوگی
سرینگر/07فروری: ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کشمیر نے اپنے ایک بیان میں اس بات پر زور دیا ہے کہ وادی کشمیر میں کروناوائرس سے متعلق نمونوں کی جانچ کیلئے ایک ٹسٹنگ لیبارٹری کا قیام ناگزیر بن گیا ہے ۔ ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ یہاں پر لیبارٹری قائم کرنے سے اس مہلک میں مرض میںمبتلاء مریضوںکا علاجوقت پر ہوسکتا ہے ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق ڈاکٹرس ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر نثارالحسن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ مہلک وائرس کروناء کیلئے کشمیر میں ایک لیبارٹری کا قیام لازمی بن گیا ہے ۔ ڈاکٹرس ایسوسی ایشن نے کہا ہے کہ اس مہلک مرض نے دنیا بھر میں دہشت مچادی ہے اور عین ممکن ہے کہ اس وائرس کا اثر یہاں پر بھی ہو کیوںکہ یہ جراثیم سردی میں زیادہ پنپتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ چین اور دیگر مشکوک علاقوں سے کشمیر آنے والے افراد کی سکریننگ کے بعد ان سے جو نمونے حاصل کئے جاتے ہیں انہیں نیشنل انسٹیچوٹ آف وائرولاجی پونے بھیج دیا جاتا ہے اور وہاں سے صرف ایسے نمونوں کے نتائج فوری طور پر بھیج دئے جاتے ہیں جن کے ٹسٹ منفی آتے ہیں جبکہ دیگر نمونوں کوالتواء میں رکھا جاتا ہے ۔ڈاکٹر نثارالحسن نے کہا ہے کہ یوایس ایف ڈی اے نے کسی بھی منظور شدہ لیبارٹری میں اس ٹسٹ کو انجام دینے کی منظور ی دی ہے اور اب لیبارٹریاں نمونوںکی جانچ کرسکتے ہیں بغیر انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ بھیجنے کے ۔ڈاکٹر نثارالحسن نے کہا کہ ہم نے جی ایم سی سرینگر کیلئے بائیوسیفٹی 3لیبارٹریوں کی مانگ کی تھی کیوں کہ ہمارے پاس بہترین لیبارٹری ماہرین ہے جس اس اس ٹسٹ کو بخوبی انجام دے سکتے ہیں تاہم ہمیں ڈائیگناسٹک کٹوں کی ضرورت ہے جس کے بعد ہم یہ ٹسٹ یہاں پر انجام دے سکتے ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی شخص جس کو کھانسی، تپ یا دیگر وائرس کی نشانیوںہو اور اس کا رابطہ ایسے شخص سے رہا ہو جو متاثرہ ملک سے آیا ہو تو اس کی تشخیص ہونی چاہئے ۔انہوںنے کہا کہ جس شخص میںوائرس سے متعلق نشانیاں پائی نہ جائے اس کے متاثر ہونے کی بھی کافی امکانات ہے لھٰذا ایسے شخص کی بھی سفری جانکاری حاصل کرنا ضروری ہے ۔یاد رہے کہ جموں کشمیر کے قریب 24افراد جو چین اور تھائی لینڈ سے آچکے ہیں کو طبی نگرانی میں رکھا گیا ہے اور اب تک قریب کسی بھی شخص کو وائرس سے متاثر نہیں پایاگیا۔ ٓ( سی این آئی )
Comments are closed.