ویڈیو: سانحہ گائو کدل جیسے زخم کشمیریوں کے دلوں میں آج بھی ترو تازہ/ ساگر

اہل کشمیر کو وہ دن آج بھی یاد ہیں جب کشمیریوں کا خون بہانا جگموہن اور اُس کے پشت پناہوں کامشغلہ بن گیا

سرینگر/22جنوری: شہدائے گائو کدل کو زبردست الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس نے کہا ہے کہ جموں وکشمیر کے عوام کے دلوں میں گائوکدل ، بجبہاڑہ، ہندوارہ، کپوارہ، صفاکدل ، ٹنگہ پورہ اور حول جیسے درجنوں قتل عاموں کے زخم ہمیشہ تازہ رہیں گے اور یہاں کے عوام جگموہن اور اُس کے پشت پناہوں کی ساجھیداری میں ہوئے بے گناہوں کے قتل عام، انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں اور نوجوانوں کی نسل کشی کو کبھی بھی نہیں بھول سکتے ہیں۔سی این آئی کو موصولہ بیان کے مطابق ان باتوں کا اظہار نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے شہر سرینگر کے سینئر لیڈران اور انچارج کانسچونسیز کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کے دشمن آج کتنے ہی عوام دوستی کے جھوٹے نعرے بلند کریں لیکن ان کا ماضی جمہوریت کی بیخ کنی، کشمیر دشمنی اور بے گناہوں کے خون سے پُر ہے۔ انہوں نے کہا کہ 28برس قبل 19جنوری 1990جان بوجھ قاتل جگموہن کو جموں وکشمیر کا گورنر بنا ڈالا، جبکہ اُس وقت کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اُس وقت کے مرکزی وزیر داخلہ سے بار بار تاکید کی کہ جگموہن کو جموں وکشمیر کا گورنر نامزد نہ کریں کیونکہ ڈاکٹر صاحب جگموہن کی مسلم دشمن چہرے سے بخوبی واقف تھے۔ لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت جگموہن کو ہی یہاں کا گورنر بنایا گیا، جس پر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے احتجاجاً وزارتِ اعلیٰ کی کرسی کو لات مار دی اور مستعفی ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد ہی جگموہن نے دور درشن پر کشمیری قوم کیخلاف کھلے عام صاف الفاظ میں اعلان جنگ کیا اور اگلے ہی روز یعنی 21جنوری 1990کو گائوکدل میں معصوم اور بے گناہ لوگوں پر گولیوں کی بوچھاڑ کرا کے اس بات کا صاف اشارہ دے دیا کہ اسے کس کام کیلئے یہاں تعینات کیا تھا۔ اور پھر 25جنوری کو ہندوارہ اور 27جنوری کو کپوارہ میں ایسے ہی بے گناہوں کا قتل عام کیا اور کشمیریوں کا خون بہانا جگموہن کیلئے معمول بن گیا۔ علی محمد ساگر نے کہا کہ 28برس گزر جانے کے باوجود بھی گائوکدل جیسے قتل عاموں کے زخم یہاں کے لوگوں کے دلوں میں ہرے ہیں اور وہ اس بات سے بھی باخبر ہیں کہ یہ سب کچھ کس کی ایما پر ہورہا تھا۔ انہوں نے کہا کہ شمال سے لیکر جنوب اور مشرق سے لیکر مغرب تک جموں وکشمیر میں خون کی ایسی ہولی کھیلی گئی، جس سے انسانیت کی روح کانپ جاتی ہے۔ وقت دبے پائوں گزر گیا، 28برس بیت گئے، لیکن کشمیریوں کے یہ زخم آج بھی تر و تازہ ہیں۔ جنرل سکریٹری نے کہا کہ 2016کے بعدسے 1990کے مظالم دہرائے گئے اور کئی جگہوں پر ماضی کے ریکارڈ بھی مات گئے۔ افسوس کہ کشمیریوںکی سسکیاں ،چیخ و پکار اور آہ و زاری اُن کے کانوں تک نہ پہنچی جو آج جمہوری نظام ، عوام دوستی اور کشمیر دوستی کے دم بھر رہے ہیں۔ظالم نہایت اطمینان اور طنطنے سے کھلے عام دندناتے پھر رہے تھے ،عوام کو تاریکیوں میں دھکیلا جارہا تھا، انسانی حقوق کی پامالیوں کے تمام ریکارڈ مات ہورہے تھے لیکن کشمیریوں سے ہمدردی جتلانے والے انسانیت سوز کارناموں کے عیوض اقتدار کے مزے لوٹ رہے تھے۔علی محمد ساگر نے کہا کہ جگموہن اور اُس کے پشت پناہوں نے ہی ایک منصوبہ بند سازش کے تحت کشمیری سے پنڈتوں کو نکالا جن میں سے بیشتر آج بھی بیرونِ وادی در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

Comments are closed.