سرینگر:کشمیر صوبے میں رواں ماہ کے اوائیل میں ہوئی غیر متوقع اور بھاری برف باری کے تناظر میں گورنر ستیہ پال ملک نے انتظامیہ کو واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ لوگوں کی ہر ممکن راحت رسانی کریں ۔
واضح رہے کہ 3 اور 4 نومبر کو وادی میں ہوئی بھاری برف باری سے بجلی ، پانی ، سڑک رابطوں کے ڈھانچے کو کافی نقصان ہوا علاوہ ازیں کشمیر صوبے کے مختلف اضلاع میں زرعی اور باغبانی شعبے کو بھی کاف نقصان ہوا ۔ یہ برف باری اُس وقت ہوئی جب گرمائی دارلخلافہ میں 26 اور 27 اکتوبر 2018 کو بند ہوئے تھے اور یہ منتقلی کے عمل سے گذر رہے تھے کیونکہ نہیں اپنا کام کاج 5 نومبر 2018 کو دوبارہ جموں میں شروع کرنا تھا ۔
گورنر کی ہدایات پر اُ ن کے مشیروں اور چیف سیکرٹری نے فوری طور پر صورتحال کا جائیزہ لیا اور صوبائی و ضلع انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ 24 گھنٹے کام کر کے وادی میں بجلی ، پانی اور سڑک رابطوں کو فوری طور سے بحال کریں ۔ گورنر انتظامیہ نے صورتحال پر قریبی نظر رکھ کر اس بات کو یقینی بنایا کہ برف باری کے صرف 72 گھنٹے بعد تمام بنیادی خدمات ، سڑک رابطے ، پانی اور بجلی سپلائی بحال ہو جائے ۔
چونکہ بجلی سپلائی تمام دیگر خدمات کیلئے لازمی ہے اس لئے کمشنر سیکرٹری پی ڈی ڈی کو خصوصی طور سے سرینگر بھیجا گیا تا کہ وہ بذاتِ خود بحالیاتی کام پر نظر گذر رکھیں ۔ سرینگر شہر کے اکثر علاقوں کے ساتھ ساتھ بڑے قصبوں میں محکمہ بجلی ، ڈویژنل اور صوبائی انتظامیہ کی سنجیدہ کوششوں کے باعث ایک ہی دن میں بحال کی گئی جبکہ 95 فیصد بجلی سپلائی برف باری کے 72 گھنٹوں میں ہی بحال کی گئی ۔ گورنر نے مختلف خدمات کی بحالی کا بذاتِ خود جائیزہ لیا اور مشیروں اور چیف سیکرٹری سے متواتر فیڈ بیک حاصل کیا ۔
یہ جاننے پر کہ زرعی اور باغبانی شعبے بالخصوص سیب کے باغات کو غیر متوقع برفباری سے کافی نقصانات سے دو
سرینگر 10 نومبر 2018 ء
کشمیر صوبے میں رواں ماہ کے اوائیل میں ہوئی غیر متوقع اور بھاری برف باری کے تناظر میں گورنر ستیہ پال ملک نے انتظامیہ کو واضح ہدایات دی ہیں کہ وہ لوگوں کی ہر ممکن راحت رسانی کریں ۔
واضح رہے کہ 3 اور 4 نومبر کو وادی میں ہوئی بھاری برف باری سے بجلی ، پانی ، سڑک رابطوں کے ڈھانچے کو کافی نقصان ہوا علاوہ ازیں کشمیر صوبے کے مختلف اضلاع میں زرعی اور باغبانی شعبے کو بھی کاف نقصان ہوا ۔ یہ برف باری اُس وقت ہوئی جب گرمائی دارلخلافہ میں 26 اور 27 اکتوبر 2018 کو بند ہوئے تھے اور یہ منتقلی کے عمل سے گذر رہے تھے کیونکہ نہیں اپنا کام کاج 5 نومبر 2018 کو دوبارہ جموں میں شروع کرنا تھا ۔
گورنر کی ہدایات پر اُ ن کے مشیروں اور چیف سیکرٹری نے فوری طور پر صورتحال کا جائیزہ لیا اور صوبائی و ضلع انتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ 24 گھنٹے کام کر کے وادی میں بجلی ، پانی اور سڑک رابطوں کو فوری طور سے بحال کریں ۔ گورنر انتظامیہ نے صورتحال پر قریبی نظر رکھ کر اس بات کو یقینی بنایا کہ برف باری کے صرف 72 گھنٹے بعد تمام بنیادی خدمات ، سڑک رابطے ، پانی اور بجلی سپلائی بحال ہو جائے ۔
چونکہ بجلی سپلائی تمام دیگر خدمات کیلئے لازمی ہے اس لئے کمشنر سیکرٹری پی ڈی ڈی کو خصوصی طور سے سرینگر بھیجا گیا تا کہ وہ بذاتِ خود بحالیاتی کام پر نظر گذر رکھیں ۔ سرینگر شہر کے اکثر علاقوں کے ساتھ ساتھ بڑے قصبوں میں محکمہ بجلی ، ڈویژنل اور صوبائی انتظامیہ کی سنجیدہ کوششوں کے باعث ایک ہی دن میں بحال کی گئی جبکہ 95 فیصد بجلی سپلائی برف باری کے 72 گھنٹوں میں ہی بحال کی گئی ۔ گورنر نے مختلف خدمات کی بحالی کا بذاتِ خود جائیزہ لیا اور مشیروں اور چیف سیکرٹری سے متواتر فیڈ بیک حاصل کیا ۔
یہ جاننے پر کہ زرعی اور باغبانی شعبے بالخصوص سیب کے باغات کو غیر متوقع برفباری سے کافی نقصانات سے دو چار ہونا پڑا ہے ، گورنر نے انتظامیہ کو فوری ہدایات دیں کہ وہ متاثرہ کسانوں کی زیادہ سے زیادہ معاونت کریں ۔ ڈویژنل کمشنر کشمیر اور جموں سے کہا گیا کہ وہ ایک ابتدائی سروے کرا کے زرعی اور باغبانی شعبے کو ہوئے نقصانات کا تخمینہ لگائیں ۔
3 اور 4 نومبر کو ہوئی برفباری سے باغات اور کھڑی فصلوں کے ساتھ ساتھ دیگر بنیادی ڈھانچے کو ہوئے نقصانات کے تناظر میں گورنر انتظامیہ نے حالیہ برفباری کو ریاست کیلئے مخصوص خصوصی قدرتی آفت قرار دیا تا کہ متاثرہ کسانوں کو ایس ڈی آر ایف کے تحت اضافی ریلیف اور مدد دی جا سکے ۔ ریلیف کی رقم موجودہ 18 ہزار فی ہیکٹر سے بڑھا کر 36 ہزار فی ہیکٹر سیب جیسے فصلوں کیلئے مقرر کی گئی ہے ۔ اس سے پہلے کسانوں کو 6800 روپے فی ہیکٹر کی ریلیف رقم دی جاتی تھی جسے اب پانچ گنا کر کے 36 ہزار روپے فی ہیکٹر کر دیا گیا ہے ۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ برفباری کے صرف دس دن بعد ہی متاثرہ کسانوں کو ریلیف دینے کا عمل شروع کیا جا چکا ہے اور اس عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ گورنر انتظامیہ کس تیزی سے کام کر رہی ہے ۔ عبوری ریلیف اقدام کے طور پر ہر متاثرہ ضلع کو اس مقصد کیلئے دس دس کروڑ روپے مہیا کرائے گئے ہیں ۔ یہ رقم اُن چار کروڑ روپے سے علاوہ ہے جو پہلے ہی ریلیف مقاصد کیلئے ہر ایک ڈپٹی کمشنر کو دستیاب کرائے گئے ہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ مرکزی حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایک خصوصی ٹیم جموں کشمیر روانہ کریں تا کہ وہ یہاں زرعی اور باغبانی شعبے کو ہوئے نقصانات کا جائیزہ لیں تا کہ متاثرین کو ایس ڈی آر ایف کے قوانین سے آگے بڑھ کر بھی معاوضہ دیا جا سکے ۔
انتظامی ردِ عمل کو مستقبل کی برفباری اور ناساز گار موسمی حالات کے تناظر میں مزید مستحکم کرنے کیلئے گورنر انتظامیہ نے پی ڈبلیو ڈی کی طرف سے مختلف مشینیں حاصل کرنے کیلئے 28 کروڑ روپے منظور کئے ہیں ان میں 16.50 کروڑ روپے جدید طرز کے 3 سنو کٹر مشینیں خریدنے ، 6 کروڑ روپے 15 سنو پلو مشینیں خریدنے اور 5.50 کروڑ روپے سے 22 بلڈوزر خریدنا بھی شامل ہے ۔
گورنر نے کشمیر صوبے میں لازمی خدمات بہت جلد بحال کرنے کیلئے افسروں کی تعریف کی ۔ جموں دربار کی منتقلی کے باوجود بھی گورنر انتظامیہ نے پوری انتظامی مشینری پر زور دیا ہے کہ وہ مزید تندہی اور لگن کے ساتھ کام کر کے سرمائی مہینوں کے دوران لوگوں کی مشکلات کا ازالہ کریں ۔
ایک جوابدہ اور متحرک انتظامیہ ہوتے ہوئے گورنر انتظامیہ نے اس بات کا عہد کیا ہے کہ موسمِ سرما کے دوران برفباری اور ناساز گار موسمی صورتحال سے مکمل طور پر نمٹا جائے گا اور اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ عوام کو کم سے کم دقتوں کا سامنا کرنا پڑے ۔
اگرچہ دربار اس وقت جموں میں ہے اعلیٰ حکمران بشمول مشیر ، چیف سیکرٹری اور اہم انتظامی سیکرٹری مسلسل کشمیر کا دورہ کر کے صورتحال کا جائیزہ لینے کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل کا بھی جائیزہ لیا کریں گے ۔ گورنر انتظامیہ نے وادی کے عوام کو یقین دلایا ہے کہ موسمِ سرما کے دوران بھی اُن کی بہبودی کیلئے اقدامات کئے جائیں گے اور گورنر انتظامیہ موسمِ گرما کی طرح آنے والے مہینوں میں بھی اُن کی طرف اپنی توجہ مرکوز کرے گی
Sign in
Sign in
Recover your password.
A password will be e-mailed to you.
Comments are closed.