موسم سرما3ہزار کروڑ روپے مالیت کی متبادل ترسیلی لائن کےلئے پہلا بڑا چیلنج

ماحولیاتی قواعد وضوابط کی خلاف ورزی نہیں کی گئی : چیف ایگزیکٹوآفیسرسٹر لائٹ پاﺅر

سری نگر:کے این این / ”415کلومیٹر جالندھر ۔ امرگڑھ ترسیلی لائن “بچھانے والی ”سٹر لائٹ پاﺅر “ نامی نجی کمپنی نے کہا ہے کہ آنے والاموسم سرما کمپنی اور 3ہزار روپے مالیت کی ترسیلی لائن کے پروجیکٹ کےلئے بڑی آزمائش ہوگی ۔نجی کمپنی کے چیف ایگزیکٹوآفیسر وید منی تیواری نے پروجیکٹ کا خلاصہ کرتے ہوئے کہاکمپنی 35سال تک پروجیکٹ کی دیکھ ریکھ بھی کرے گی ۔انہوں نے واضح کیا کہ کمپنی نے ترسیلی لائن بچھانے کے دوران ماحولیاتی قواعد وضوابط کی خلاف ورزی نہیں کی ہے جبکہ یہ معاملہ عدالت اور انسانی حقوق کمیشن میں زیر سماعت ہے لہٰذا کمپنی اس پر کوئی رائے زنی نہیں کرسکتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ کمپنی کےلئے یہ ایک باوقارپروجیکٹ تھا ،جسے مقرر وقت سے قبل ہی پورا کیا گیا ۔ بجلی کا ترسیلی ڈھانچہ تعمیرکرنے والی کمپنی سٹر لائٹ پاور نے 3000 کروڑ روپے مالیت کے نادرن ریجن سسٹم سٹرنتھنگ( این آر ایس ایس ۔ 29) وقاری پروجیکٹ کی باضابطہ شروعات کرنے کا اعلان کیا ، جو نادرن(شمالی) گرڈ سے جموں وکشمیر کو اضافی بجلی کی سپلائی فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔کے این این کے مطابق کمپنی کے چیف ایگزیکٹوآفیسروید منی تیواری نے کمپنی نے کئی ذمہ دارو ں اورتیکنیکی ماہرین کے ہمراہ سرینگرکے ایک ہوٹل میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پروجیکٹ سے متعلق جانکاری فراہم کی ۔ تیواری کا کہنا تھا کہ یہ پروجیکٹ مقررہ مدت سے 2 ماہ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔انہوں نے کہا کہ415کلومیٹر (این آر ایس ایس۔ 29) کے اس پروجیکٹ کے آغاز سے ریاست میں کم سے کم 33فیصد بجلی کے ترسیلی صلاحیت میں اضافہ ہونے سے وادی میں بجلی کی سپلائی کویقینی بنائی جاسکے گی۔انہوں نے کہا کہ اس ترسیلی لائن سے وادی میں 1000میگاواٹ اضافی بجلی فراہم ہوگی۔سی ای او سٹر لائٹ پاﺅر نے بتایا کہ( این آر ایس ایس۔29 )میں400کے وی کی 135کلومیٹر جالندھر ۔ سانبہ ترسیلی لائن جو جون2016ءمیں شروع ہوئی تھی ۔ 400کے وی کی 280 کلومیٹر سانبہ ۔ امرگڈھ ( سوپور) دو ڈبل سرکٹ ترسیلی لائن اور 400/220 کے وی کاایک جی آئی ایس سب سٹیشن جس کا آج آغاز ہوا ہے ،شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ کمپنی نے ملک میں سال2010سے ترسیلی لائنوں کے بچھانے کا کام شروع کیا ہے ،تاہم 2014میں کمپنی کو( این آر ایس ایس ۔ 29)پروجیکٹ ملا ،جوکہ بقول انکے ملک میں اب تک کا سب سے بڑا نجی ترسیلی پروجیکٹ ہے ۔بجلی کی ترسیلی لائن چھانے والی نجی کمپنی کے چیف ایگزیکٹوآفیسروید منی تیواری کا کہناتھا کہ پروجیکٹ کی تکمیل کےلئے 4سال درکار تھے ،جسے کمپنی نے دو ماہ قبل ہی پورا کیا جبکہ ترسیلی لائن کو وادی تک لانے کےلئے دشوار ترین پیرپنچال خطے میں ٹاﺅر نصب کرنے پڑے جس کےلئے کمپنی نے امریکی اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا اور سطح سمندر سے13ہزار فٹ کی بلندی پر بھی ٹاﺅر نصب کئے گئے ۔انہوں نے کہا کہ متبادل ”415کلومیٹر جالندھر ۔ امرگڑھ ترسیلی لائن “ سے وادی میں بجلی لانے کی صلاحیت70فیصد بڑھ جائیگی اور موسم سرما کے دوران اہلیان کشمیر کو گھپ اندھیروں کا سامنا نہیں کر نا پڑ سکتا ہے ۔نامہ نگاروں کے کئی سوالات کے جواب میں وید منی تیواری نے کہا کہ ماحولیات کا خاص خیال رکھتے ہوئے یہ پروجیکٹ ترتیب دیا گیا ۔جب اُن سے پوچھا گیا کہ یہ آپ کی کمپنی نے ماحولیاتی قواعد وضوابط اور قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور معاملہ عدالت میں بھی ہے ،کمپنی کا اس حوالے سے کیا ردعمل ہے؟،تو وید منی تیواری نے کہا ’یہ معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے ،لہٰذا کمپنی اس پر کوئی رائے زنی نہیں کرسکتی ،کمپنی عدالت کو اس حوالے سے اپنا جواب دے گی ،تاہم انہوں نے کہاکہ نجی کمپنی نے ماحولیاتی قواعد وضوابط یا قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی ہے ۔ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’یہ معاملہ انسانی حقوق کمیشن میں بھی ہے ،تاہم کمپنی کا مقصد نفع یا نقصان نہیں بلکہ لوگوں کو سہولیت فراہم کر نا ،جس میں کمپنی کامیاب ہوئی اور جموں وکشمیر کے لوگوں کےلئے کمپنی ایک تحفہ دے رہی ہے‘ ۔انہوں نے کہا کہ کمپنی تین دہائیوں تک پروجیکٹ کی ضمانتدار ہے جبکہ سخت ترین اور مشکل موسمی حالات سے نمٹنے کےلئے پیشگی منصوبہ ترتیب دیا جارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ ریاست کے موسمی چیلنجز کو مدنظر رکھ کر ترسیلی لائین کی متواتر بنیادوں پر نگرانی کی جائے گی اور اس مقصد کےلئے ایک ’ٹاسک فورس ‘ تشکیل دیا گیا ہے ،جو ہر ماہ ترسیلی لائین کا معائینہ کرے گا ۔انہوں نے کہا کہ ایمرجنسی حالات سے نمٹنے کےلئے کمپنی نے پیشگی اقدامات اٹھائے جن میں ’سنو مو بائیل ‘ خریدے جارہے ہیں جبکہ معروف امریکی کمپنی سے بھی رابط کیا جارہا ہے ،وغیرہ شامل ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ پر 3ہزار کروڑ روپے کی لاگت آئی ہے جس میں افرادی قوت پر مجموعی طور پر 40سے50فیصد خرچ کیا گیا ،تاہم زیادہ تر اخراجات کمپنی کو جدید ٹیکنالوجی اور مشینری پر برداشت کرنے پڑے ۔

Comments are closed.