انتخابات کے تئیں عوام کی عدم دلچسپی عیاں، چناﺅ عمل کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا
سرینگر(پی آر ) موجودہ حالات کو مخدوش قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے جنرل سکریٹری علی محمد ساگر نے کہا ہے کہ چاروں طرف خوف و ہراس کا ماحول ہے، غیریقینیت اور بے چینی کی صورتحال میں لوگ عدم تحفظ کے شکار ہیں اور ایسے حالات میں الیکشن کا انعقاد کرواکے جمہوریت کا گلا گھونٹا جارہا ہے۔
ان باتوں کا اظہار انہوں نے آج پارٹی ہیڈکوارٹر پر ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں پارٹی کے سینئر لیڈر شریف الدین شارق(سابق ایم پی)، سینئر لیڈر و سابق وزیر جاوید احمد ڈار(ضلع صدر بارہمولہ)، سینئر لیڈر شیخ محمد رفیع اور صوبائی سکریٹری ایڈوکیٹ شوکت احمد میر کے علاوہ کئی عہدیداران بھی موجو دتھے۔ جنرل سکریٹری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ایک ایسے وقت میں، جب جموں وکشمیر کی لگ بھگ تمام مقامی جماعتیں ریاست کی خصوصی پوزیشن(دفعہ35اے) کے دفاع کیلئے الیکشن سے دوری اختیار کئے ہوئے ، الیکشن کا انعقاد کروانا جمہوریت پر کاری ضرب ہے۔
انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں پہلے دو مرحلوں میں149بلدیاتی وارڈوں میں سے 69پر اُمیدوار بلا مقابلہ کامیاب قرار پائے گئے ہیں، جس سے الیکشن کے تئیں لوگوں کی عدم دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان انتخابات کیلئے بیشتر اُمیدوار ایسے سامنے آئے ہیں جو مشکوک ہیں اور جن کا ماضی جرائم پیشہ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ جنوبی کشمیر کے درجن بھر بلدیاتی وارڈوں پر مہاجروں کو بلا مقابلہ کامیاب قرار دیا گیا ہے، جو دہائیوں سے باہر قیام پذیر ہیں۔ محض دکھاوے کیلئے منعقد کرائے جارہے الیکشن کیلئے جمہوریت کی دھجیاں اُڑائی جارہی ہیں، نیزد الیکشن عمل کا مذاق بنا کر رکھ دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ہماری حکومت نے 2011میں پنچایتی الیکشن کروائے اُن میں 80فیصد لوگوں نے اپنی حق رائے دہی کا استعمال کیا اور ان میں ہزاروں اُمیدواروں نے اپنی قسمت آزمائی۔ علی محمد ساگر نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اس وقت 35اے اور 370کے دفاع کیلئے میدانِ کارزار میں سرگرم ہے۔
اسی مقصد کی خاطر ہم نے الیکشن عمل کا حصہ نہ بننے کا فیصلہ کیا ہے اور اس بات کا برملا اعلان کیا ہے کہ جب تک دفعہ 35اے پر مرکز کی طرف سے پوری یقین دہانی نہیں آتی تب تک نیشنل کانفرنس الیکشن میں حصہ نہیں لے گی۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حالات کسی بھی زاویئے سے الیکشنوں کیلئے سازگار نہیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی انتقام گیری کی بنا پر نیشنل کانفرنس کے عہدیداروں کی سیکورٹی واپس لی جارہی ہے، جو انتہائی افسوسناک اور تشویشناک عمل ہے۔ ایک طرف گورنرنوجوانوں میں پائی جارہی احساس بیگانگی کو دور کرنے کی بات کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب زمینی سطح پر ایسی پالیسی اختیار کی گئی ہے جس سے ہمارا نوجوانوں پشت بہ دار کیا جارہا ہے اور سسٹم سے دور کیا جارہا ہے۔ شبانہ چھاپے، کریک ڈاﺅنوں، توڑ پھوڑ، مار پیٹ اور خوف و ہراس پھلانے کے واقعات آئے روز رونما ہوتے ہیں۔ بستیوں میں گھس کر مکانوں اور دیگر املاک کی توڑ پھوڑ کرنا اب معمول بن کر رہ گیا ہے۔ ایسی کارروائیوں کے جاری رہتے ہوئے حالات میں سدھار اور نوجوانوں کا غصہ کیسے کم ہوسکتا ہے۔
علی محمد ساگر نے مرکزی سرکار اور گورنر انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ سخت گیر پالیسی ترک کرکے افہام و تفہیم کا راستہ اپنائیں کیونکہ سختی اور دباﺅ سے صورتحال سے صورتحال میں بہتری کی اُمید نہیں کی جاسکتی۔
Comments are closed.