ریڈ ونی میں فوجی کیمپ قائم کرنے کے خلاف احتجاج جاری

فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں 3نوجوان پلٹ لگنے سے زخمی

سری نگر:جنوبی کشمیر کے ریڈ ونی کولگام میں فوجی کیمپ کو قائم کرنے کے خلاف مسلسل دوسرے روز عوام نے زبردست احتجاجی مظاہرے کر کے اننت ناگ کولگام شہراہ پر دھر نا دے کر ٹریفک کی نقل و حمل مسدود کردی۔

ادھرعلاقے میں فورسز اور مطاہرین کے درمیان جھڑپوں میں 3نوجوان پلیٹ لگنے سے شدید زخمی ہوئے جن کو اسپتال منتقل کیا گیا ہے ۔ اس دوران پولیس نے بتایا کہ مذکورہ کیمپ وہاں پہلے ہی موجود تھا جس کو 2سال قبل وہاں سے عارضی طور ہٹایا گیا تھا ۔

جنوبی کشمیر کے ریڈ ونی کولگام میں فوجی کیمپ کو قائم کرنے کے خلاف اتوار کو مسلسل دوسرے روز بھی لوگوں کے احتجاجی مظاہرے جاری رہے جس دوران مختلف علاقوں جن رام پورہ ،مش پورہ ،ہاوورہ ،کھڈونی ،قیموہ ،کھڈونی بالا وغیرہ علاقوسے تعلق رکھنے والے مرد ،زن، بزگ بچے گھروں سے باہر آ کر اننت ناگ کولگام شہراہ پر دھر نا دیکر زبردست احتجاجی مظاہرے کئے ہیں ۔

عینی شاہدین نے بتایا جب اتوار کے صبح علاقے میں فورسز کی ایک پارٹی احتجاج کے جگہ کے قریب پہنچ گئی جس دوران احتجاج میں شامل نوجوانوں نے فورسز پر پتھراو کیا ہے جس دوران فورسز نے نوجوانوں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور آنسوں گیس کے درجنوں گولے داغنے کے علاوہ پلیٹ گن کا استعمال کیا ہے جس کے نتیجے میں 3نوجوان پلیٹ لگنے کی وجہ سے زخمی ہوئے ہیں جن کو مقامی اسپتال میں منتقل کیا گیا ہے ذرائع نے زخمی نوجوانوں کی شناخت مدثر احمد ولد غلام محمد ساکنہ رام پورہ ،ارشاد احمد ولد محمد مقبول کے علاوہ شاکر رشید ولد عبد الرشید ساکنان ریڈونی کی طور کی ہے احتجاجیوں کا کہنا تھا علاقے میں فوجی کیمپ اسے پہلے بھی آبادی کے لئے سوہان روح بنا تھا ہم کسی بھی حالت میں علاقے میں کیمپ کو قائم کرنے نہیں دیں گیں.

واضح رہے کولگام کے ریڈونی علاقے میں موجود پنچایت گھر میں کچھ دن پہلے 1RRفوجی یونٹ سے وابستہ ایک اور فوجی کیمپ قائم کیا گیا ہے جہاں علاقے میں تب سے مسلسل احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ پولیس ذرائع نے بتایا کیمپ کو پنچایت انتخابات کے پیش نظر علاقے میں قائم کیا گیا ہے ۔اس دوران ایس ایس پی کولگام ہرمیت سنگھ نے میڈیا کو” بتایاکہ وہاں کیمپ پہلے ہی قائم تھا جسکو سال 2016میں امن و قانون کے صورت حال کے پیش نظر وہاں سے ہٹا یا گیا تھا جسکو دوبارہ قائم کیا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ یہاں کچھ نیا نہیں ہے“۔

کریم آباد پلوامہ شبانہ محاصرے کے دوران ابل پڑا

فوج کی 55راشٹریہ رائفلز اور پولیس ٹاسک فورس کی ایک بڑی تعداد نے جنگجوں کی مصدقہ اطلاع ملنے پر کریم آباد پلوامہ نامی علاقے کو محاصرے میں لیکر تلاشی کاروائی شروع کردی۔نمائندے نے مقامی لوگوں کے حوالے سے بتایا کہ فوج اور سیکورٹی فورسز کی درجنوں گاڈیاں سیرن بجاتی ہوئی علاقے میں داخل ہوگئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے پورے علاقے کی ناکہ بندی کرتے ہوئے لوگوں کو گھروں سے باہر آنے کیلئے کہا،نمائندے کے مطابق رات کی تاریکی میں لوگوں نے جب فوجی گاڈیوں کی سنسناہٹ سنی تو وہ گھروں سے باہر آئے اور مساجدوں کے لوڈسپیکروں پر آزادی اور اسلام کے حق میں نعرہ بازی کرنے لگے۔

مساجدوں میں شورغل بپا ہونے کے ساتھ ہی یہاں جنگ جیساسماں دیکھنے کو ملا،جہاں مقامی آبادی کے مرد و زن نے زبردست عوامی مزاحمت دکھائی وہیں فوج اور پولیس ٹاسک نے اس مزاحمت کا توڈ کرنے کیلئے آنسوو¿ں گیس کے استعمال کے علاوہ ساونڈ شلوں کے استعمال کے ساتھ ہوائی فائرنگ بھی کی جس کی وجہ سے کریم آباد اور مضافاتی علاقے گھروں میں سہم کررہ گئے۔نمائندے ارشادالاحق کے مطابق سخت ترین عوامی مزاحمت کے باوجود فوج اور پولیس نے صبح صادق ہونے تک علاقے کا محاصرہ برابر جاری رکھا جس دوران فوج نے 24 مقامی نوجوانوں کی گرفتاری عمل میں لائی۔

مقامی لوگوں کے حوالے سے نمایندے نے خبر دی ہے کہ اس دوران فوج اور فورسز نے درجنوں مکانوں کا توڈ پھوڈ عمل میں لاکر قریبا لاکھوں کی اشیا کو نقصان پہنچا،عبدالغنی نامی مقامی باشندے کے مطابق فوج نے جہاں بلالحاظ عمروجنس لوگوں کی مارپیٹ کی وہیں وہی عورتوں اور بزرگوں کی تذلیل بھی کی گئی۔انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ علاقے کا ایک نوجوان پچھلئے سال سے عسکری صف میں سرگرم عمل ہے جبکہ اس کا والد جو کہ محکمہ پولیس میں کانسٹیبل تھا اور تین سال قبل عارضے میں مبتلا ہوکر فوت ہوگیا.

انہوں نے فوج پر الزام عاید کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے مرحوم پولیس اہلکار کے لواحقین کو ہراساں کرنے علاوہ اس کے لڑکے کی بھی گرفتاری عمل میں لائی جو کہ سریحا انسانی حقوق کی پامالی ہے۔مقامی آبادی نے نوجوانوں کی گرفتاری،علاقے کو مسلسل محاصرے میں لینے،اور بلاجواز گرفتاریوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے کہا کہ وہ فوجی زیادتیوں کی وجہ سےعلاقے سے ہجرت کرنے کیلئے مجبور ہوگئے ہیں۔

اس دوران دفاعی ذرائع نے کریم آباد محاصرے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے جنگجوو¿ں کی اطلاع ملنے پر اس دیہات کو محاصرے میں لیا تھا تاہم دوران تلاشی کسی بھی جگہ جنگجوں کے ساتھ کوئی آمنا سامنا نہیں ہوا جس کے بعد محاصرہ ختم کرلیا گیا،گرفتاریوں کے سلسلے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں زرائع کا کہنا تھا کہ اس بارے میں پولیس ہی کوئی معقول جواب دے سکتی ہے۔کے این ایس ،جے کے این ایس

Comments are closed.