چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری کا بھارتی رویہ چلنے والا نہیں
بھارت کشمیری اَسیروں پر مظالم ڈھا کر قیدیوں کے حوالے سے جینوا کنونشن کی نفی کررہا ہے:مقررین
سرینگر:۲۴،جولائی: مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے منعقد ہ سمینار سے مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری کا بھارتی رویہ چلنے والا نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارت دنیا میں اپنے آپ کو جمہوریت کا علمبردار کہلانا چھوڑ دے یا پھر جمہوری اختلاف رائے اور انسانی حقوق کا قدر کرے۔ان کا کہناتھا کہ بھارت کشمیری اَسیروں پر مظالم ڈھا کر قیدیوں کے حوالے سے جینوا کنونشن کی نفی کررہا ہے۔کشمیر نیوز نیٹ ورک کے مطابق آبی گزر سرینگر میں حریت قائدین بشمول سید شبیر احمد شاہ، الطاف احمد شاہ، شاہد الاسلام، اکبرایاز، پیر سیف اللہ، راجہ میرج الدین کلوال، نعیم احمد خان، فاروق احمد ڈار، ظہور احمد وٹالی، محمد اسلم وانی اور شاہد یوسف شاہ کی قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے ) کے ہاتھوں گرفتار کا ایک سال مکمل ہونے پر مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے ایک سیمینار منعقد ہوا ۔’ کشمیری اَسیر ضمیر کے قیدی ہیں‘‘ کے عنوان سے ہونے والے اس سمینار میں سیاسی مزاحمتی قائدین، سماجی قائدین، انسانی حقوق کیلئے کام کرنے والے لوگوں ، تجارتی انجمنوں سے متعلق افراد، چیمبر آف کامرس اور انڈسٹریز کے سربراہاں، دانشوروں، علماء، ماہرین تعلیم ،اور اَسیران بے تقصیر کے متعلقین کے ساتھ ساتھ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مجلس کی صدارت قائد محمد یاسین ملک نے کی جبکہ بزرگ قائد سید علی شاہ گیلانی جو لگاتار خانہ نظر بند ہیں اور قائدمیرواعظ محمد عمر فاروق جنہیں آج صبح ایک بار پھر خانہ نظر بند کیا گیا نے اس مجلس کو ٹیلی فون کے ذریعے مخاطب کیا۔جن اہم شخصیات نے آج کے اس سمینار میں شرکت کی یا اس سے خطاب کیا اُن میں تحریک حریت کے چیئرمین محمد اشرف خان صحرائی، جے ایل ایل ایف کے نائب چیئرمین بشیر احمد بٹ، حریت کانفرنس(ع) کے غلام نبی زکی، طارق احمد ڈار، عبدالمجید زرگر، سمپت پرکاش، جاوید احمد ٹنگہ (صدر چیمبر)،شکیل قلندر، ڈاکٹر مبین شاہ، ڈاکٹر ظفر مہدی، نیرندر سنگھ خالصہ، غلام نبی سمجھی، شبیر احمد ڈار، بلال احمد صدیقی، دختران ملت کی نمائندہ، مولانا مسرو رعباس انصاری، غلام محمد ناگو، مولوی بشیر عرفانی، مشتاق احمد صوفی، محمد شفیع خان، یاسمین راجہ، نثار احمد، مولانا خورشید احمد قانونگو، مولانا شوکت حسین کینگ، مولا نا ریاض احمد شاہ، فردوس احمد شاہ، عبدالرشید اونتو، محمد یاسین عطائی ، امتیاز احمد شاہ، عبدالرشید ڈار، غلام نبی نجار، حاجی بشیر احمد وانی، محمد یوسف نقاش، سید محمد شفیع، سید بشیر اندرابی، نثار حسین راتھر، محمد احسن اونتو، عبدالصمد انقلابی، عمر عادل ڈار، رمیز راجہ، غلام رسول ڈار ایدھی، ماسٹر محمد افضل، شوکت احمد بخشی، مشتاق اجمل، نور محمد کلوال، محمد یاسین بٹ، غلام نبی وار، دین محمد (صدر لال چوک ٹریڈرس )، عبدالمجید( صدر مائسمہ ٹریڈرز)فاروق احمد نواز، محمد اشرف وانی، شبیر احمد قاضی،سجاد گل قابل ذکر ہیں۔شیخ عبدالرشید اور عبدالرشید حکیم نے اس پروگرام کی نظامت کے فرائض ادا کئے۔سمینار کا بنیادی مقصد جموں کشمیر کے اُن اسیروں جنہیں ظلم و جبر کے خلاف مزاحمت کی پاداش میں اسیر کیا گیا ہے کی حالت زار کو اجاگر کرنے اور ان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنے کیلئے کیا گیا تھا جنہیں بھارت کی مختلف جیلوں بشمول تہاڑ و منڈاولی جیل دہلی اور جموں کشمیر کی مختلف جیلوں جن میں ادھمپور جیل، ہیرا نگر جیل، کھٹوعہ جیل، امپھالہ جیل جموں، کورٹ بلوال، سرینگر سینٹرل جیل، کپوارہ جیل، بارہمولہ جیل، اسلام آباد جیل، پلوامہ جیل قابل ذکر ہیں میں مقید رکھا جارہاہے۔مقررین نے ان اسیروں کے تئیں پُر تشکر جذبے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں جموں کشمیر کے لوگوں کے حق کے لئے جدوجہد کرنے اور جموں کشمیر پر بھارت کی سوچ کے مخالف سیاسی نظریہ رکھنے کی پاداش میں ٹارچراور تنگ طلب کیا جارہا ہے ۔مختلف مقررین کہ جنہوں نے اس سمینار سے خطاب کیا نے کہا کہ بھارت قیدیوں کے لئے پاس کئے گئے جینوا معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں شامل ہے اور اس حوالے سے اس ملک پر لازم ہے کہ یہ اس معاہدے کی پاسداری کرے لیکن اس کے بالکل برعکس بھارت کشمیری اسیروں کو تنگ طلب کرنے، ان کے ایام اسیری کو طول دینے اور انہیں زیادہ سے زیادہ تکلیف میں مبتلا کرنے کیلئے ہر قسم کے ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ مقررین نے کہا کہ جموں کشمیر کے اسیر ضمیر کے قیدی ہیں اور وہ بھی اقوام عالم کی اپنایت اور ہمدردی کے حق دار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت ایک جانب تو سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویدار ہے لیکن دوسری جانب مختلف سیاسی سوچ رکھنے والوں کو محض سوچ رکھنے پر قید کررہا ہے۔ یہ جمہوری اپروچ نہیں بلکہ آمرانہ سوچ و اپروچ ہے اور بھارت کو یاتو اپنے ان جمہوری دعوؤں سے باز آجانا چاہئے یا پھر سیاسی مکانیت کی مسدودی ،سیاسی اختلاف رائے کو اسیر کرنے سے باز رہنا چاہئے، اُسے جمہوری قدروں کی پامالی روک کر جموں کشمیر کے لوگوں کو سیاسی مزاحمت کو جاری رکھنے کی اجازت دینی چاہئے ۔مقررین نے کہا کہ بھارت ایک طرف سے سیاسی مکانیت کو مسدود کررہ اہے اور دوسری جانب بڑی جمہوریت ہونے کا بھی دعویدار ہے لیکن چٹ بھی میری اور پٹ بھی میری کی یہ متضاد سوچ یکجا نہیں چل سکتی۔بیان کے مطابق کشمیری اسیروں کی حالت زار اور انہیں پہنچائی جانے والی تکالیف کو اجاگر کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بار بار سیفٹی ایکٹ لگانا،پولیسی حربے استعمال کرکے ایام اسیری کو طول دینا،این آئی اے اور ای ڈی جیسی بھارتی ایجنسیوں کو استعمال کرکے کشمیریوں کو مختلف بھارتی جیلوں میں ڈال دینا،عمر قید کی سزا کاٹنے والوں اور دوسرے عام قیدیوں کو کشمیر کی جیلوں سے نکال کر جموں کی سخت جیلوں میں شفٹ کرنا،اسیروں سے متعلق خود اپنی عدالتوں کے احکامات اور دوسرے مروجہ اصولوں کی بیخ کنی کرنا، اسیروں کو طبی سہولیات سے محروم رکھنا،انہیں مکمل ننگا کرکے کئی کئی دن جیل کی تنگ و تاریک اور تنہائی کی کوٹھریوں میں رکھنا ،انکی مار پیٹ، تعذیب اور تذلیل و تحقیر کرنااور اسی قسم کے دوسرے جبری ہتھکنڈے کشمیر میں نیا دستور بن چکے ہیں۔ اسی لئے عالمی برادری، انسانی حقوق اداروں، سول سوسائٹی،عالمی ریڈ کراس(آئی سی آر سی)اور دوسروں کو اس ظلم و جبر کا نوٹس لینا چاہئے اور فوری مداخلت کرکے اسیروں کے حقوق ، انہیں تعذیب و ترہیب سے بچانے اور انہیں اسیری سے نجات دلانے کیلئے اپنا اثر رسوخ استعمال میں لانا چاہئے۔مقررین نے کہا کہ ۳۰ جون ۲۰۱۷ ء کو این آئی اے نے ایک بیان دیا تھا جس میں اس ایجنسی نے کہا تھا کہ کشمیری مزاحمت کاروں کے خلاف اس کے پاس کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہیں لیکن اس کے چند ہی دن بعد اسی ایجنسی کو استعمال کرکے کئی حریت پسندوں کو اس کے ذریعے اغوا کرکے دہلی پہنچایا گیا اور تب سے یہ لوگ بے بنیاد اور من گھڑت کیسوں پر تہاڑ جیل میں مقید ہیں۔ یہی نہیں ابھی حال ہی میں اسی ایجنسی نے کشمیری خواتین مزاحمتی قائد سیدہ آسیہ انداربی، فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین کو بھی گرفتار کرکے تہاڑ جیل پہنچادیا ہے۔مقررین نے امید ظاہر کی کہ عالمی برادری اور وہ لوگ جو انسانوں کے حقوق کیلئے فکر مندرہتے ہیں ضرور کشمیریوں کی آہ و بکا کو سنیں گے اور کشمیری اسیروں کی زندگیاں اور ان کے مستقبل کو بچانے کی سعی کریں گے۔اتحاد و اتفاق کو مضبوط تر بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے مقررین نے کہا کہ جموں کشمیر کے لوگوں کی تحریک مزاحمت اپنے پیدائشی حق اور حق خودرادیت کے حصول کیلئے ہے اور ہ بحیثیت ایک قوم و ملت اتحاد و اتفاق ہی سے اپنی منزل کو پاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مشترکہ مزاحمتی قیادت کشمیریوں کے جذبات و احساسات کی ترجمان ہے اور ہمیں اس قیادت کے پیچھے شدومد کے ساتھ چلنا چاہئے اور اگر کسی معاملے یا مسئلے پر ہماری رائے ان سے مختلف ہو تو اسے عوامی حلقوں میں زیر بحث لانے کے بجائے خود ان کے پاس جاکر اس کا حل نکالنے کی راہ اپنانی چاہئے۔مقررین نے کہا کہ سخت حالات اور مشکل اوقات ہونے کے باوجود اور بھارت کے ظلم و جبر کے باوصف کشمیریوں کی تحریک آزادی اور حق خودارادیت کے حصول کی جدوجہد حصول منزل مقصود تک جاری رکھی جائے گی۔
دوران شب تاصبح موسلادارارشیں اوربادل پھٹنے کے واقعات
Comments are closed.