جموں کشمیر سرکار جسمانی طور نا خیز افراد کے مطالبات حل کرنے کیلئے سنجیدہ نہیں; 26جنوری کے پیش نظر بھوک ہڑتال پروگرام موخر ، دو فروری سے ہوگی جموں میں بھوک ہڑتال شروع / صدر
سرینگر/18جنوری: جموں کشمیر انتظامیہ سے مطالبات کو حل کرنے کی پُر زور اپیل کرتے ہوئے جموں کشمیر ہینڈی کپیڈ ایسوی ایشن نے 26جنوری کے پیش نظر احتجاجی بھوک ہڑتال کوموخر کرنے کا اعلان کرتے ہوئے واضح کر دیا کہ یکم فروری تک مطالبات کو حل نہ کیا گیا تو دو فروری سے جموں میں بھوک ہڑتال شروع کی جائے گی ۔ سی این آئی کے جموںمیں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسمانی طور نا خیز افراد کی انجمن جموں کشمیر ہینڈی کپیڈ ایسوسی ایشن کے صدر عبد الرشید بٹ نے کے کے ورما کے ہمراہ بتایا کہ جموں کشمیر ہینڈی کپیڈ ایسوسی ایشن مطالبات منوانے کیلئے سالو ں سے برسر جد و جہد ہے اور ابھی تک کسی بھی سرکار نے جسمانی طور نا خیز افراد کے مسائل و مطالبات حل کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دی۔ بار بار احتجاجی مظاہروں کے بعد بھی ہمیں صرف یقینی دہانیاں کے سوا کچھ بھی نہیں مل رہا ہے اور زمینی سطح پر بھی کوئی کام نہیں ہو رہا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اب چونکہ ایک بار پھر سرکار کی عدم توجہی پر جموں کشمیر ہینڈی کپیڈ ایسوسی ایشن نے مطالبات منوانے کے حق میں 25جنوری کو جو بھوک ہڑتال کا پروگرام دیا تھا تاہم 26جنوری اور کچھ ذاتی مصروفیات کو دیکھتے ہوئے یہ پروگرام موخر کر دیا گیا ہے۔ اور سرکار پر زور دیتے ہیں کہ رواں ماہ کے آخر تک ہمارے مطالبات کو حل کیا جائے۔ بٹ نے واضح کر دیا کہ اگرایسا نہیں کیا گیا تو 2 فروری2021 کو ہم ایگزبشن گرونڈ نزدیک پریس کلب جموں میں غیر معینہ عرصہ کیلئے بھوک ہڑتال شروع کریں گے جب تک ہمارے مطالبات پورے نہیں ہوں گے ۔ انہوںنے کہا کہ اس بھوک ہڑتال میں ہینڈ ی کپیڈ ایسوسی ایشن کی 12رکنی ٹیم شامل ہو گی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی اور بھی بطور ہمدردی بھوک ہڑتال میں شامل ہونا چاہتا ہے تو اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔ بٹ نے کہا کہ چونکہ ہم نے بار بار مرکزی و جموں کشمیر کی سرکار پر زور دیا کہ جسمانی طور نا خیز افراد کے جو بھی مسائل و مطالبات ہے ان کو حل کیا جائے تاہم آج تک کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا گیا جس کے نتیجے میں ہم احتجاجی مظاہروں کا سہارہ لینے پر مجبور ہوتے ہیں اگر اس بھوک ہڑتال میں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اس کی ذمہ داری لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ اور محکمہ سوشل ویلفیئر پر عائد ہو گی ۔ (سی این آئی )
Comments are closed.