بزم شعروادب سنگرامہ کے زیر اہتمام سوپور میں یک روز ادبی کانفرنس کا انعقاد

مرحوم پروفیسر مشعل سلطان پوری کو خراج پیش،ڈاکٹر نذیر آزاد کی ’’وقتہ کس کتھ تام جزیرس منز‘‘ اور یوسف صمیم کی ’’دبرائے ‘‘کی رسم رونمائی

کشمیری ادب کی موجودہ صوتحال پر مباحثہ ،محفل مشاعرہ کا بھی منعقد

سرینگر / /کے پی ایس : عالمگیر وبائی بیماری کوروناوائرس کے بیچ ایس او پیز کو اپناتے ہوئے بزم شعرو ادب سنگرامہ کے زیر اہتمام مورخہ 10 اکتوبر 2010کوہوٹل U2پلازہ سوپور میں منعقد کیا گیا ۔کانفرنس میں چار نشستیں منعقد کی گئیں ۔کانفرنس کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔اس کے بعد نعت بحضور سرور کائناتﷺ پیش کی گئی ۔بعد ازاں صدر بزم شعروادب یوسف صمیم نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے مہمانوں کا والہانہ استقبال کیا ۔کانفرنس کی تمام نشستوں میں نظامت کے فرائض معروف نوجوان شاعر اور ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ یافتہ نثار اعظم نے خوش اصلوبی سے انجام دئے ۔اس کے بعد کانفرنس کی پہلی نشست میں برصغیر کے ادیب وکشمیر ی زبان و ادب کے اسکالرپروفیسر مشعل سلطان پوری جو یکم اکتوبر کو اس دار فانی سے رحلت کرگئے کی یاد میں مقررین نے ان کو خراج عقیدت پیش کیا ۔اس موقعہ پر برصغیرکے نامور ادیب وشاعر شہناز رشید نے مرحوم مشعل سلطان پوری کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ مشعل صاحب نے کشمیری زبان وادب کیلئے ایسے کارنامے انجام دئے ہیں ۔جو ہمارے لئے مشعل راہ ثابت ہونگے ۔انہوں نے کہا کہ مرحوم نے انہیں حوصلہ دیکر ایک مقام پر پہنچایا ہے ۔اس موقعہ معروف کشمیری شاعر فیاض تلگامی نے خراج پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی وفات سے من حیث القوم ہمیں بہت بڑا نقصان ہوا ۔انہوں نے ان کے ساتھ مراسم کے حوالے سے چند اہم باتیں گوش گذار کئے ۔اس موقعہ معروف ترجمہ کار ،شاعر وادیب گلشن بدرنی نے خراج پیش کرتے ہوئے کہا کہ مرحوم اپنے آپ میں ایک انجمن اور ایک تحریک تھی۔انہوں نے کہا کہ جو کام کشمیری زبان وادب کی بقاء اور ترویج کیلئے مرحوم نے کیا ہے وہ قابل تقلید ہے ۔اس موقعہ پر معروف قلمکار اسحاق کریری اور نامور شاعر ونعت خواں نادم بخاری نے مرحوم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا ۔اس کانفرنس کی دوسری نشست میںڈاکٹر نذیر آزاد کا کشمیر ی شاعری مجموعہ ’’وقتہ کس کتھ تام جزیرس منز‘‘اور یوسف صمیم کی ’’دُبرائے ‘‘کی رسم نمائی انجام دی گئی ۔اس نشست کی صدارت معروف افسانہ نگاراور قلمکار رحیم رہبر نے کی ۔کتابوں کی رسم رونمائی کے بعد ڈاکٹر نذیر آزاد نے بزم شعر وادب کا شکریہ ادا کیا اور کتاب کی تخلیق کے حوالے اپنے خیالات کا اظہار کیا ۔اس موقعہ پر یوسف صمیم نے کہا کہ میری شاعری تب ہے جب جب کشمیری زندہ ہیں اور کہا کہ میں اطہر فاروق کی رہبری کامشکور ہوں اور آپ تمام افراد کا ممنون ہوں کہ آپ میری رہبری کرتے ہیں ۔اس کے بعدایوان صدارت میں موجودنوجوان نامورشاعرو نقاد حسن اظہر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شاعری کوتب ہی کو ئی داد دیتا ہے جب شاعری میں وہ معیار اور وزن ہو ۔معیاری شاعری قاری کو پکارتی ہے ورنہ یہ فضول مشق ثابت ہوتی ہے ۔ اس موقعہ پر فن مصوری کے ماہر اور ہاہر تعلیم وٹریڈریس فیڈریشن سوپور کے صدر قاضی حشمت اللہ ہاشمی نے یوسف صمیم کی ادبی سرگرمیوں کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ موصوف کو ان سرگرمیوں کے دوران کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔انہوں نے اپنی تصنیف ’’ضرب المثل ‘‘کے خدوخال کو بھی سامنے لایا ۔گلشن بدرنی نے مختلف گوشوں پر بات کی تاہم انہوں نے کشمیری زبان وادب کی آباری کیلئے پُرعزم طریقے سے کام کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔انہوں نے کہا کہ شاعری کیلئے معیار مقرر کرنا لازمی امر ہے ۔اس موقعہ پر ڈاکٹر غلام محمد آجرنے اپنے زرین خیالات کا اظہار کیا ۔انہوں نے کہا کہ اپنی تخلیقات کو منظر عام پر لانے کیلئے جذبہ کے ساتھ تجربہ اور طریقہ کار لازمی ہے ۔اپنے صدارتی خطبہ میں فصیح وبلیغ انداز میں صد ر محفل رحیم رہبر نے بہت ساری مثالیں دیکر شعری اور نثری ادب پر روشنی ڈالی ۔انہوں نے کہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ تخلیق میں انہار اور نیا پن لانا لازمی ہے ۔انہوں نے ڈاکٹر نذیر آزاد اور یوسف صمیم کو مبارکباد دی اورادبی خدمت انجام دینے پر ان کی سراہنا کی ۔اس کے بعد تیسری نشست مباحثہ پر مبنی تھی ۔جس صدارت ڈاکٹر نذیر آزاد نے کی ۔مباحثہ میں نوجوان اسکالر اور شاعرمسرور مظفر نے ’’کآ شر موجود ادبچ صورتحال ‘‘ نے بحث کرتے ہوئے کہا کہ ہماری مادری زبان کشمیری شاعری کو بین الاقوامی حیثیت سے حاصل نہیں ہے جبکہ مقامیت میں بھی اس کا وجد متزلزل ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے شعراء کو پوسٹ ماڈرنزم کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے اس قالب میں شہناز رشید کو اترنے کی داد دیتے ہوئے کہا کہ ان کی شاعری میں پوسٹ ماڈر نزم کی کرنیں نظر آتی ہیں ۔اس کے بعد نامور شاعر وادیب طاریق احمد طاریق نے تنقید کے حوالے بات کرتے ہوئے کشمیر کے موجود ادب کی صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے پاس مواد نایاب ہے اور جن نقادوں نے تنقید میں تاریخ ساز کام کیا ہے ان کی تنقید نگاری صرف کئی ایوانوں کی زینت بنی ہوئی ہے ۔جبکہ ہمارے لئے دستیاب نہیں ہے ۔ اس موقعہ پر نامور اور کہن مشق شاعر شہناز رشید نے کشمیری ادب کے موجودہ صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شعراء یا ادباء کو اپنی تخلیق کاری کو جدیدیت سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے ماضی میں گذرے شعراء کی تخلیق کاری کی داد دیتے ہوئے کہا کہ ان کی تخلیق کو ذہن نشین کرکے قدم آگے بڑھانے چاہئے ۔آخر پر ڈاکٹر نذیر آزاد نے اپنے صدارتی خطبہ میں مباحثہ کا بھرپور احاطہ کیا ۔اس کے بعدمعروف صحافی اور مدیر کے پی ایس ناظم نذیر نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ شعراء اور ادباء سماج کے عظیم انسان ہیں اور وہ اپنی عظمت کو پہچان لے اور اپنے تخلیق کو اجاگر کرنے اور منظر عام پر لانے کیلئے ذرائع ابلاغ سے جڑنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کیلئے لازم ملزوم ہیں ۔کانفرنس کی چوتھی نشست میں محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت فیاض تلگامی نے کی ۔ایوان صدارت میں شاہد دلنوی ،ریاض ربانی کشمیری،ساگر سرفراز موجود تھے ۔مشاعرہ میں وادی کے نامور شعراء نے حصہ لیکر اپنا کلام پیش کیا ۔آخر تحریک شکرانہ پیش کیا گیا ۔

Comments are closed.