کوڈ۔19:پرائیویٹ سیکٹر میںبرسر روز گار افراد بھی ہوئے ہیں بے کار؛ روزگار کے وسائل تلاش کرنا اور نجی سیکٹر کو مستحکم بنانے کیلئے مالی پیکیج ناگزیر

سرینگر /22ستمبر /کے پی ایس: عالمگیر وبائی بیماری کوروناوائرس کی وجہ سے جہاں لوگوں میں اس مہلک وائرس سے اضطراری اور اضطرابی کیفیت طاری ہے وہیں مالی بدحالی کی وجہ سے لوگ دن بہ دن پریشانیوں میں مبتلا ہورہے ہیں اور کئی مہینوں تک مالی بحران کا مقابلہ کرتے رہے لیکن اب مجموعی طور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ لوگوں کے پاس سکت باقی نہیں ہے کہ وہ ضروریات زندگی کو پورا کرسکیں ۔لوگ اپنے اعتبار سے کام کرتے ہیں لیکن اس نازک وقت میں نجی اداروں نے عرصہ دراز سے کام کرنے والے ملازمین کو برطرف کیا یا کئی قائم شدہ ادارے ہی مقفل ہوگئے ۔یہاں کے تعلیمی ادارے مسلسل 10مہینوں سے بند پڑے ہوئے ہیں اوربیشترنجی تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے تدریسی وغیر تدریسی عملہ کئی مہینوں سے تنخواہوں سے محروم ہیں جبکہ ٹور اینڈ ٹراول کمپنیوں کی سرگرمیاں بھی بُری طرح سے متاثر ہیں اور ان کمپنیوں کے دفاتر بھی بند ہوئے ہیں۔ ان اداروں میںکام کرنے والا عملہ تنخواہوں سے محروم ہیں ۔اسی طرح سے پرائیویٹ سیکٹر سے وابستہ بیشتراداروں کا حال یہی ہے ۔اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے ایک ٹور اینڈ ٹراول کمپنی میں کام کرنے والے ڈرائیور سجاد احمد نے بتایا کہ کوروناوئراس کی وجہ سے ٹور اینڈ ٹرول کمپنیوں کا کام بالکل معطل ہوا ہے اور ان کمپنیوں میں کام کرنے والے چھوٹے بڑے ملازمین تنخواہوں سے محروم ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ ماہانہ بنیادوں پر ایک مخصوص رقم بطور تنخواہ حاصل کرتا تھا اور اسی تنخواہ پر وہ اپنے اہل وعیال کی پرورش کرنے کے علاوہ زیر تعلیم بچوں کے اسکول فیس کی ادئیگی اور دیگر اخراجات پورا کرتا تھا ۔لیکن گذشتہ چھ ماہ سے مسلسل وہ گھرمیں ہی بے کار بیٹھا ہے جس سے مختلف مسائل پیدا ہوئے کیونکہ وہ اپنے اہل وعیال کو دو وقت کی روٹی فراہم کرنے سے قاصر ہے اور اپنے بچوں کا اسکول فیس ادا کرنے کی سکت بھی باقی نہیں رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس مالی بدحالی کی وجہ سے بچوں پر بھی نفسیاتی اثر ات مرتب ہورہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ وہ پیشہ سے ایک تجربہ کار ڈرائیور ہے لیکن حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ اس کا تجربہ ہی بے کار ہے کیونکہ روز گار کیلئے کوئی وسیلہ نظر نہیں آتا ہے ۔ادھر سرینگر سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ گاڑیوں کی مستری کاکام کررہا تھا لیکن ان نامساعد حالات میں ٹرانسپورٹ کو خسارہ کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں ان کا کام بھی بُری طرح متاثر ہوا اور وہ اہل خانہ میں کئی بچیوں کے اخراجات پورا کرنے سے قاصر ہیں ۔انہوں نے کہا کہ ان کو کمانے کیلئے کوئی راہ ہی نظر نہیں آتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ شہر میں رہ کر وہ مزدوری یادیگر کام سے ناواقف ہے جس وجہ سے وہ فاقہ کشی پر مجبور ہورہا ہے ۔اس دوران ایک معروف دستکار الطاف ااحمدنے بتایا کہ ان کا کام گذشتہ دس مہینوںبُری طرح متاثر ہے اور کوئی پُرسان حال نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ دکانوں یا کمروں کا کرایہ دے رہے ہیں لیکن وہ کرایہ بھی برابر نہیں ہوپارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس بے کاری کی وجہ سے ان کو اپنے اہل وعیال سمیت کافی پریشانیوں کا سامنا ہے ۔ مجموعی طور یہاں بے روزگار ی نے بُری طرح اپنا جال بچھایا ہے اگر چہ اس سے پہلے بھی یہاں کے حالات ابتر تھے اور بے روزگاری کی وجہ سے لوگ خود کشی کرتے تھے لیکن اب بر سر روزگارافراد بھی بے روزگار ہوئے ہیں ۔اس سلسلے میں سرکار کو عام لوگوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ سماج کا کوئی فرد بھوکا نہ رہے اور ان کا اہل وعیال ذہنی کوفت کا شکار ہونے سے بچ جائیں ۔کورونا وائرس سے پیداشدہ صورتحال کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ سرکار پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روزگار کے وسائل پیداکرنے کی طرف توجہ مبذول کریں اور نجی اداروں یعنی پرائیویٹ سیکٹر کو مستحکم بنانے کیلئے مخصوص مالی پیکیج کا اعلان کیا جائے ۔ تاکہ روزگار بحال ہوسکے ۔

Comments are closed.