وادی کے قائم شدہ اسپتالوں میں نظام ناقص ؛ طبی ونیم طبی عملہ کی کمی اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی مریضوں کیلئے باعث پریشانی
نظام کو بہتر بنانا اور طبی عملہ کی تعیناتی کویقینی بنانا گورنرانتظامیہ کی ذمہ داری
سرینگر /12ستمبر /کے پی ایس :وادی میں قائم شدہ چھوٹے بڑے اسپتالوں میں ناقص انتظام اور طبی سہولیات کی عدم دستیابی و طبی ونیم طبی عملہ کی کمی کی وجہ سے بیماروں اور تیمار داروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ اس میں جہاں سرکار ذمہ دار ہے وہیں عوام بھی برابر کا ذمہ دار ہے کیونکہ سرکاری اسپتال قومی سرمایہ ہوتے ہیں اور عوام کی طبی سہولیات کیلئے ہی سرکار نے ان اسپتالوںکو شہر ودیہات میں قائم کیا ہے لیکن اسپتال میں انڈور یا آوٹ ڈور مریض اور ان کے ہمراہ تیمار دار قدر کرنے کے بجائے نقصان پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں اور اس پر یہ کہہ کر فخر کرتے ہیں کہ سرکار نے ہمارے لئے یہ اسپتال قائم کئے ہیں۔کشمیر پریس سروس کے عینی مشاہدہ کے مطابق شہرو دیہات میں قائم اسپتالوں کے و اش روم یا باتھ روم اس طرح ویران اور ناقابل استعمال بنے ہوئے ہیںکہ ان میں جانے والے حساس لوگوں کا دل ودماغ ہی باختہ ہوجاتا ہے ۔کیونکہ ان واش رومز میں ایسی ناپاک اور گندگی ہوتی ہے جو حیوانوں کیلئے بھی مناسب نہیں ہے ۔یہ بات طے ہے کہ ان واش رومز اور باتھ رومز میں گندگی ڈالنے والے مریض اور تیمار دارہی ہیں جوصفائی اور حقیقت پسندی سے نآشنا ہیں اور یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر اسپتالوںمیں ان باتھ رومزو واش رومز تباہ ہوئے ہیں ۔ان کی خرابی میں واضح طور مریضوں اور تیمار داروں کا عمل دخل ہے لیکن ان باتھ رومز کی خستہ حالی سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسپتال انتظامیہ پھر کن چیزوں نگرانی کرتی ہے ؟وہ جان بوجھ کر آنکھیں بند کرکے یہ سب تماشا دیکھتے ہیں لیکن بروقت کاروائی عمل میں لانے اور اسپتال میں موجود سہولیات کی طرف دھیان دینے کی زحمت گوارا نہیں کرتے ہیں ۔جس سے اسپتالوں کا نظام ناقص بنا ہوا ۔جدید ٹیکنالوجی سے قائم شدہ اسپتال لیس ہیں لیکن تنصیب شدہ مشینری کی طرف یا تو دھیان نہیں دیا جاتا ہے یا ان کو بروئے کار لانے کیلئے ڈگرییافتہ اور تجربہ کار عملہ مدستیاب نہیں ہوتا جس سے یہ مشینری بے کار پڑی ہوئی ہوتی ہے اور غریب مریض ان مشینریوں سے استفادہ حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔اسی طرح سے اسپتالوں میں ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل عملہ کی کمی سے مریضوں کا مناسب علاج و معالجہ نہیں ہوسکتا ہے ۔اگرچہ بڑے اسپتالوں بشمول ایس ایم ایچ ایس ،سکمز صورہ اور بیشتر ضلع وسب ضلع اسپتالوں میں نائٹ ڈیوٹی پر ڈاکٹر مامور ہوتے ہیںاگر چہ وہ ڈگری کے حوالے سے سند یافتہ ہوتے ہیں لیکن تجربہ ان کے پاس نہیں ہوتا ہے اور ان میں بیشتر جاب پریکٹس پر لگائے ہوتے ہیں ۔ ان کی پریکٹس کے دوران تجربہ کار ڈٖاکٹرو ں کی موجود گی لازمی ہے ۔پڑھائی کا ہر کسی کواحترام ہے لیکن بناء تجربہ کے پڑھائی بے سود ہے ۔بدقسمتی سے اسپتال انتظامیہ ’’کار نجار بدست گلکار‘‘ کے مصداق کام چلانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان اسپتالوں میںایمرجنسی اورداخل مریضوں کیلئے یہ ناقص نظام جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ مجموعی طور سرکاری اسپتالوں کی حالت انتہائی خراب اور ناگفتہ بہہ ہے۔حالانکہ سرکار کا یہ ہمیشہ دعویٰ رہا ہے کہ شعبہ صحت کے استحکام کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں لیکن زمینی صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔اس سلسلے میں گورنر انتظامیہ پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے اسپتالوں میں نظام کو بہتر بنانے اور طبی عملہ کی تعیناتی یقینی بنانے کیلئے فوری اقدامات اٹھائیں ۔
Comments are closed.