کوروناوائرس کے بیچ وادی میں قائم یتیم خانوں اور دالعلوموں کی حالت متاثر

قیام پذیر بچوں کو مشکلات کا سامنا ، کمزور طبقوں کے تئیں رائج شدہ اسکیموںکی عمل آوری اور سرکار کی توجہ ناگزیر

سرینگر /10ستمبر/کے پی ایس : عالمگیر وبائی بیماری کورونا وائرس سے ہرسو اضطرابی واضطراری کیفیت طاری ہے ۔اس مہلک وائرس سے محفوظ رہنے کیلئے جموں وکشمیر میں بھی سرکاری سطح پر لاک ڈاون کا نفاذ عمل میں لایا گیا جس سے مسلسل پانچ ماہ کے دوران معمولات زندگی مفلوج رہی ۔تعلیمی سرگرمیوں میں اَن لاک دوران بھی متاثر ہی ہیں ۔اگرچہ کاروباری سرگرمیاں اور تجارتی سرگرمیاں شروع ہوئی ہیں تاہم تعلیم کے حوالے سے آج بھی لاک ڈاون جیسے حالات ہی ہیں ۔لاک ڈاون کے نفاذ کے دوران جہاں نجی اسکولوں کو خسارہ کا سامنا کرنا پڑا وہیں وادی میں قائم دارالعلوموں ،یتیم خانوں ودیگر مذہبی اداروں کا کام بھی متاثر ہوا ۔ موصولہ تفصیلات کے مطابق لوگوں کی مالی معاونت سے چلنے والے دارالعلوم ،درسگاہیں ،یتم خانے اور دیگر مذہبی اداروں کا کام سرے سے ہی متاثر ہوا ۔ان یتیم خانوں یا درسگاہوں میں مقیم بچوں کی حالت بھی ابتر ہوئی ۔اگر چہ کئی بچوں کے وارث ہیں جنہوں نے بوریا بسترا اٹھاکر اپنے رشتہ داروں کے پاس چلے گئے لیکن وہ بچے جن کا دائمی مسکن یہ یتیم خانے یا درسگاہوں کے ہوسٹل ہیں ۔وہ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں ۔بتایاجاتا ہے کہ یتیم خانوں یادرسگاہوں کے مہتمم حضرات تمام سرگرمیوں کو محدود کرنے کے بعد بھی مقیم بچوں کیلئے مناسب انتظام کرنے سے قاصر رہے اور تدریسی وغیر تدریسی عملہ کو تنخواہیں واگذار بھی نہ کرسکے ۔اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس نے اسلامک ریسرچ اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ کے سرپرست اور معروف قانون دان ایڈوکیٹ عبدالرشید ہانجورہ کے ساتھ بات کی ۔تو موصوف نے لاک ڈاون کے دوران یتیم خانوں اور دارالعلوموں کے تئیںمشکلات اور سرکارپرعائد ذمہ داریوں کے حوالے سے بتایاکہ یتیم خانوں یا دارالعلوموں کے منتظمین فوڈ کارپوریشن آف انڈیا کی زیرنگرانی میں قائم راشن گھاٹوں سے رعایتی داموں پرراشن حاصل کرتے تھے لیکن موجودہ صورتحال میں یہ سلسلہ بھی بند ہوا ۔انہوں نے کہا کہ ان اداروں کے ذمہ دار مخصوص ایام کے دوران چندہ مہم کے ذریعے لوگوں سے صدقات ،زکواۃ حاصؒ کرتے تھے یا صاحب ثروت افراد ان اداروں کی ضروریات ملحوظ نظر رکھ مالی معاونت کرتے تھے لیکن ان حالات کے دوران ایسا بھی ممکن نہ ہوسکا ۔جس سے مہتمم حضرات ودیگر عملہ کو مقیم بچوں کیلئے طعام وقیام کے انتظام میں کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ۔انہوں نے کہا کہ جو بچے اس دوران گھر گئے ہیں ان کا تعلیمی کرئیربھی دائو پر لگ چکا ہے ۔ایڈوکیٹ موصوف نے کہا کہ ان اداروں کی معاونت کیلئے سرکاری سطح پر integrated child protection (ICP)اسکیم عرصہ دراز سے رائج ہے اور اس اسکیم کو بروئے کار لانے کیلئے محکمہ کی جانب ملازمین کی خاصی تعداد تعینات بھی ہیں لیکن یہ اسکیم برائے نام ہے ۔انہوں نے کہا کہ بھارت کے آئین میں یتیموں اور مفلوک الحال لوگوں کے حقوق اوران کی معاونت کے تئیں باضابط طورشق موجود ہیں لیکن اس کی طرف توجہ نہیں دی جارہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ متذکرہ اداروں کی حالت کو بھانپتے ہوئے سماجی کارکن کی حیثیت سے ہم نے (نیشنل کمیشن فار چائلڈرائٹ پروٹیکشن)کومدنظر رکھ کروزیر اعظم ہند کو تحریر ی درخواست ارسال کیاجبکہ اس سلسلے میں عدالت اعظمیٰ اور عدالت عالیہ میں بھی عرضی دائر کی ہے ۔انہوں نے کہا کہ یتیم خانوں یادارالعلوموںمیں قیام پذیر بچوں کی تعلیم وتربیت کے ساتھ ساتھ ان کے قیام وطعام اور دیگر ضروریا کو پورا کرنا اگر چہ منتظمین کے ذمہ ہے لیکن ان حالات میں سرکا ر پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سماج کے اس کمزور طبقہ کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے ان کے قیام وطعام کا انتظام کریں تاکہ ان یتیم اور کمزور بچوں کی پرورش بہ آسانی ہوسکے ۔انہوں نے واضح کیا کہ ان یتیم خانوں یا دارالعلوموں قیام پذیر بچے بے بس اور بے بس ہوتے ہیں اور ان کی زندگی و تعلیم وتربیت کیلئے یہ ادارے واحد سہارا ہیں ۔لہٰذا ان کا خیال رکھنا سرکاراور عوام کی انفرادی واجتماعی ذمہ داری ہے ۔

Comments are closed.