کریک ڈاون یا لا ک ڈاون کے دوران ٹرانسپورٹ متاثر : گذشتہ مہینوں سے مسافرگاڑیوں کی آمد ورفت معطل ،ٹرانسپورٹرس کے روزگار کا واحد وسیلہ معدوم
ڈارئیوروں اور کنڈیٹر وں کی مالی حالت ابتر ،بنکوں کے قرضو ں کی ادائیگی سے قاصر ،سرکار سے مخصوص امداد ی پیکیج دینے کا مطالبہ
سرینگر / 23اگست /کے پی ایس : ترقی یافتہ اور اس تیز رفتار دور میں لوگوں کی راحت رسانی کیلئے جدید وسائل دستیاب ہوئے ۔چند دہائیوں قبل ہی جموں وکشمیر کے خطے میں ٹرانسپورٹ محدود تھا اور دیہی علاقوں کے لوگ بالخصوص گھوڑوں پر سوار ہوکر یا پیدل چل کر سفر کرتے تھے ۔منزل کی مسافت طے کرنے کیلئے لوگوں کو کافی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔لیکن گذشتہ چار دہائیوں سے بالعموم اور دودہائیوں سے بالخصوص یہاں ٹرانسپورٹ بڑی تیزی کے ساتھ بڑھنے لگا اور بنکوں نے قرضوںپر گاڑیاں دینے میں کوئی پس وپیش نہیں چھوڑا جس کے نتیجے میں ہر کوئی گاڑی رکھنا کا اہل بن گیا ۔اگرچہ بنکوں کا قرضہ واجب الادا ہے تاہم فرصت کے ساتھ قسطوں میں ادائیگی آسان ہی بن گیا تھا ۔ اس رجحان کو دیکھ کئی کاموں میں مشغول افراد نے اس کو فائدہ مند سمجھ بنک سے رجوع کرکے قرضہ لیکر گاڑی خریدی اور پسنجر گاڑی چلاکر اس کا مالک یا ڈرائیور ایک اپنے اہل وعیال کو پالتا تھا دوسرا بنکوں کا قرضہ قسطہ وار ادا کرنے کی کوشش میں رہتا تھا ۔اس طرح سے ایک تیر سے دو شکار ہوتے تھے ۔لیکن حالات نے کروٹ بدلی اور مسافر گاڑیوں کی آمد معطل ہوئی ۔منسوخی 370کے بعد 5اگست سے وادی کشمیر میں تمام مسافر گاڑیاں مالکان کے گراجوں ، صحنوں یا بس اسٹینڈوں میںبند پڑی ہوئی ہیں جس سے ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کی مالی حالت متاثر ہوئی جبکہ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹر وں کا روز گار بھی بند ہوگیا اور بنکوں سے اٹھائے گئے قرضوں کی ادائیگی کاسلسلہ بھی بند ہوا ۔اس سلسلے میں مختلف علاقوں سے وابستہ ٹرنسپوٹروں نے کشمیر پریس سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وادی میں ہڑتال ہو ،بندشیں ہوں ،کریک ڈاون ہویا لاک ڈٖاون ہو تو سب سے زیادہ ٹرانسپوٹ سے وابستہ افراد ہی متاثر ہوتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بیشتر گاڑیاں بنکوں قرضہ اٹھا کر خریدی گئی ہیں ۔لیکن نامساعد حالات کی وجہ سے ٹرانسپورٹر بنکوں کے قسط ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ گذشتہ دو دہائیوں سے مسافر گاڑیوں سے وابستہ افراد کو سکت مشکلات کا سامنا ہے تاہم5اگست2019سے ان کی گاڑیاں بے کار پڑی ہوئی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ رواں سال کے ابتدائی مہینے میں جونہی مسافرگاریاں سڑکوں پر آئے توکورونا وائرس نے دستک دی اور لاک ڈاون کانفاذ عمل میں لایا گیا جس سے ایک بار پھر ان کی گاڑیوں کا پہیہ جام ہوا ۔انہوں نے کہا کہ یہ گاڑیاں ان کیلئے روز گار کا واحد وسیلہ ہیں ۔لیکن بے کار پڑنے سے ان کا روز گار متاثر ہوا ۔متعلقہ افراد اپنے اہل خانہ سمیت فاقہ کشی پر مجبور ہوگئے ۔جبکہ بنک قسطوں کی ادائیگی بھی رک گئی ۔انہوں نے کہا کہ بنک کے ذمہ داروں ومنتظمین نے حالات کو مددنظر رکھتے ہوئے قسطوں کی ادائیگی میں لاک ڈاون کے دوران چھوٹ دی جس سے ٹرانسپوٹروں نے راحت کی سانس لی ۔لیکن یہ چھوٹ بھی ان کیلئے مستقبل قریب میںبحران کھڑا کرے گئی اور قرضوں کا بوجھ اٹھانے سے مذکورہ افراد قاصر رہیں گے ۔انہوں نے کہا کہ چند دن قبل ان لاک کا اعلان ہونے کے بعد پسنجر گاڑیاں سڑکوں پرنمودار ہوئے ۔لیکن ایس او پیز کو اپناتے ہوئے نصف ہی سواریاں رکھنے کی ہدایت دی گئی اگر چہ ان سے دوگنا کرایہ لینے کی چھوٹ دی گئی لیکن مجوعی طور یہ دونوں طبقوں کیلئے نانصافی ہے کیونکہ سواریوں کے مزاج مختلف ہوتے ہیںکوئی دوگناکرایہ دینے پر الجھ جاتا ہے یاتو اس کو اس کی غربت آڑے آتی یا اس کو ظلم سمجھ کر اعتراض اٹھاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہ ناانصافی کا ایک پہلو ہے ۔دوسرا پہلو یہ ہے کہ گاڑیوں کے ڈرائیور خود غرضی کا مطاہرہ کرکے برابر سواریاں اٹھاتا ہے اور دوگنا کرایہ کا تقاضا کرتا ہے ۔جس سے حالات بگڑتے رہتے ہیں ۔اس سلسلے میں انہوں نے گورنر انتظامیہ اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ ان 10مہینوں میں ٹرانسپورٹروں کے نقصان وخسارہ کا تخمینہ لگا کر ان کی مدد ومعاونت کیلئے مخصوص پیکیج کا اعلان کریں اورٹرانسپورٹ سے وابستہ افرادکو اپنے ٹانگوں پر ایک بار پھر کھڑا ہونے کا موقعہ فراہم کیا جائے تاکہ حالات سے ٹکرائے ہوئے ٹرانسپورٹرس راحت کی سانس لیں گے۔
Comments are closed.