تعلیم بہترسماج کی تعمیر کیلئے ایک مضبوط آلہ ؛نامساعد حالات کے دوران سب سے زیادہ تعلیم متاثر ، زیر تعلیم طلبہ کا مستقبل مخدوش
انٹر نیٹ کلاسز فضول مشق ،امتحانات منعقد کرنا جلدبازی ،ایس او پیز کے تحت کلاس ورک پر غور لازمی /سرکاری ونجی اسکولوں کے اساتذہ ،زیرتعلیم طلبہ اور ان کے والدین کے تاثرات
سرینگر /22اگست / کے پی ایس : بابائے آدم کی تخلیق کے ساتھ ہی علم وعمل کا دور شروع ہوا اور تعلیم وتعلم سے زندگی کی بھاگ ڈور سنبھالی گئی ۔اس لئے ہردور میں ہر سماج کیلئے تعلیم کو جاری رکھنا ناگزیر بن گیا ہے لیکن جموں وکشمیر میںگذشتہ کئی دہائیوں سے بالعموم اور چند برسوں میں بالخصوص بگڑتے ہوئے حالات سے تعلیم سب سے زیادہ متاثر ہوئی اور زیر تعلیم بچوں کا مستقبل مخدوش ہی نظر آتا ہے ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس خطے میں خاص کر وادی کشمیر میں ذرخیز ذہن ہے اور بچوں میں تعلیم حاصل کرنے کا مادہ پیوست ہے تاہم حالات نے ذہین بچوں کی صلاحیتوں کو دبوچ لیا ۔جموں وکشمیر میں حالات نے مختلف کروٹیں لیں جس دوران تعلیمی ادارے مقفل رہے ۔5اگست 2019کومنسوخی دفعہ 370 سے یہاں کے تعلیمی ادارے مکمل طور بند پڑے ہوئے ہیں اگرچہ رواں تعلیمی سال شروع ہوتے ہی اسکول کھل گئے تھے لیکن چند دنوں کے بعد ہی کورونا وائرس جیسی مہلک بیماری نے دستک دی اور حکومتی سطح پر لاک ڈاون کا نفاذ عمل میں لایا گیا جس سے سب سے پہلے اسکولوں پر ہی تالے چڑگئے ۔اب گذشتہ پانچ ماہ سے مسلسل یہاں کے تعلیمی ادارے بند پڑے ہوئے ہیں۔اس دوران زیر تعلیم بچوں کا توجہ تعلیم سے ہٹ گیا ہے ۔شعبہ تعلیم کے حکام نے آن لائن کلاسز شروع کرنے کی مدرسین کو ہدایت دی اور سرکاری و نجی اسکولوں کے اساتذہ نے ہدایات کو عملی جامہ پہناتے ہوئے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا ۔ اس مجموعی صورتحال کے پیش نظر کشمیر پریس سروس نے نجی وسرکاری اسکولوں کے اساتذہ اور والدین و زیر تعلیم طلبہ سے بات کی۔اس سلسلے میں زیر تعلیم بچوں کے والد معراج الدین ڈار جو صحافت کے پیشہ سے وابستہ ہیں نے کے پی ایس کو بتایا کہ یہاں تعلیم ہر حال میں متاثر رہتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ لاک ڈاون کے دوران جب اسکول بند پڑے ہوئے ہیں تو سرکاری ہدایات کے مطابق اسکولوں کے اساتذہ نے آن لائن کلاسز کا آغاز کیا جو بظاہر اس برقی دور میں فائدہ مند ہے لیکن مجموعی طور آن لائن کلاسز کا پروگرام نامناسب اور بے سود ہے اور صرف گنتی کے چند اسکولوں میں زیر تعلیم بچوں کیلئے فائدہ مند ہے۔ کیونکہ شہرودیہات میں بیشتر لوگ محنت ومزدوری کرکے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات مشکل سے پورے کرتے ہیں لیکن این ڈورئیڈ فون بچوں کو مہیا رکھنے کی سکت نہیں رکھتے ۔اس کے علاوہ بیشتر دیہی علاقوں میں انٹرنیٹ کی 2جی سروس بھی اکثر اوقات میسر نہیں ہوتی ہے جس سے بچے فون ہوکے بھی آن لائن کالسز سے مستفید نہیں ہوسکتے ہیں ۔اس طرح یہ فضول مشق ہے ۔انہوں نے کہا کہ آن لائن کالسز شہر و قصبوں میں چند اسکولوں کو خوش کرنے کیلئے سرکار نے شروع کیا ۔انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ بچوں کی اکثریت رواں تعلیمی سال میں تعلیم سے محروم ہیں لیکن سرکار نے حسب روایت نومبر میں امتحانات لینے کے اعلانات جاری کئے اورسیلبس میں صرف 30فیصد چھوٹ دینے کے اعلانات جاری کئے ۔انہوں نے کہا کہ بے شک بڑے اسکولوں میں امیرزادوں کے زیرتعلیم بچے اس سے خوش ہونگے لیکن عام بچوں کیلئے یہ صریحاً ناانصافی ہے ۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ امتحانات امسال نہیں بلکہ نئے سال کے اوائل میں منعقد کئے جائیں ۔تاکہ بچے اپناکرئیر بنانے میں کامیاب ہوسکیں گے ۔انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاون کے بعد ان لاک ہوا اور اب اسکول کھلنے کے امکانات بھی نظر آتے ہیں ۔لیکن بیشتر اسکولوں کو کوڈ سنٹروں میں تبدیل کیا گیا ہے ۔ان اسکولوں میں بچوں کی تعلیم شروع کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن گئی ہے کیونکہ کوروناوائرس کے کیسوں میں آئے اضافہ ہورہا ہے جس سے اسکولوں کے بغیر کوئی دوسری جگہ کوڈ سنٹروں کیلئے ممکن نہیں ہے ۔اس لئے سرکار کو اس پر غور کرنا چاہئے اور بچوں کے مستقبل کو تاریک ہونے بچانے کیلئے اقدامات اٹھانے چاہئے ۔کے پی ایس کے ساتھ بات کرتے ہوئے علاقہ رفیع آباد کے دوردراز گائوں کنکروسہ کی پراڈائز نامی پرائیویٹ اسکول میں زیر تعلیم ساتویں جماعت کی بچی’’ ہادیہ حمید پیرزادہ ‘‘نے بتایا کہ اسکولوں سے دور رہنے سے ہماری تعلیم کافی متاثر ہوئی اور ہمارے مستقبل پر منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ منسوخی 370کے بعد ہم مسلسل گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ آن لائن کلاسز سے انہی بچوں کو فائدہ پہنچایا جن کے پاس انٹرنیٹ اور موبائیل کی سہولیات میسر تھی اوردیہی علاقوں میں اکثر بچے مستفید نہیں ہوسکیں ۔انہوں نے کہا کہ امتحانات کیلئے وہ تیار نہیں ہیںاور اگر امتحان لئے بھی جائیں تو وہ بے مقصد ہے کیونکہ ابتدائی کلاسوں کے اسباق آئندہ بڑے کلاسوں میں مدد کرتے ہیں جب ان سے بچے محروم رہے تو آگے والے کلاسوں کا سیلبس بوجھ ثابت ہوگا ۔ کے پی ایس نے سرکاری اسکول کے استاد (ہیڈ ماسٹر جی جی ایم ایس وڈی پورہ ہندوارہ) منظور احمد بٹ سے بات کی تو انہوں نے واضح طور کہا کہ اسکولوں بند رہنا بدقسمتی ہے لیکن کوروناوائرس کے باعث بند رکھنا مجبوری بن گئی تھی ۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ سرکار نے نیک نیتی کے ساتھ آن لا ئن پروگرام شروع کیا لیکن مجوعی طور اس کا فائدہ نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ ایک تو ہمارے اس خطے میں معقول انٹرنیٹ سہولیات میسر نہیں ہیں ۔دوسری جانب پسماندہ علاقوں کے غریب بچوں کے پاس این ڈئرئیڈ فون میسر نہیں ہیں۔ اس طرح آن لائن پروگراموں کا فائدہ کم بچوں کو ملا جبکہ عام بچے اس سے مستفید نہیں ہوسکے ۔انہوں نے (ای کلاسز ) پروگرام کو خوش آئند قرار دیا کیونکہ استاد اور شاگرد کا روبروہونا یا تعلقات مستحکم ہونا تعلیمی کا نظام کا ایک اہم حصہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ ایس او پیز یعنی سماجی دوریوں کو بنائے رکھتے ہوئے کلاس ورک شروع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ بچے امتحانات میں جانے کے قابل ہوسکیں بصورت دیگر امتحانات کو منعقد کرنافضول مشق ہے ۔کشمیر پریس سروس کے ساتھ بات کرتے ہوئے نجی اسکول کے سینئر استاد پیرزادہ نصیر احمد شاہ نے بتایا کہ اسکول بندرکھنے سے بچوں کی تعلیم پر منفی اثرات مرتب ہوئے کیونکہ بچے کی تعلیم کیلئے اسکول کا ماحول اور اساتذہ کا روبروہونا لازمی ہے ۔انہوں نے کہا کہ آن لائن کلاسز کا فائدہ عام بچوں کو نہیں ہوا بلکہ دیہی علاقوں کے بچے اس عمل سے شش پنج میں پڑ گئے ۔کئی بچوں کے پاس فون میسر تھا لیکن انٹر نیٹ سہولیات دستیاب نہیں تھیں جبکہ بیشتر بچوں کے پاس غربت اور پسماندگی کی وجہ سے فون کی سہولیات بھی میسر نہیں تھی ۔انہوں نے کہا کہ امتحانات منعقد کرنا نامناسب عمل ہے کیونکہ امتحان بچے سے تب ہی لیا جاتا ہے جب اس نے پڑھا ہوگا ۔انہوں نے کلاس ورک شروع کرنے کے بارے بتایا کہ کوڈ 19کی لہر جاری ہوتے ہوئے اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ لاک ڈاون کی وجہ سے جہاں بچوں کی تعلیم متاثر ہوئی وہیں کم کفافہ پر کام کرنے والے اساتذہ کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ۔انہوں نے کہا کہ نجی اسکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں بچوں کے فیس سے ممکن بنتی تھی لیکن اسکول بند ہونے اور بچوں و ان کے والدین کے ساتھ رابطے منقطع ہونے کی وجہ فیس کی ادائیگی ناممکن بن گئی جس کی وجہ سے بیشتر نجی اسکولوں کے اساتذہ کی گذشتہ 5ماہ سے تنخواہیں واگذار نہیں ہوسکی جس سے وہ اور ان کا اہل خانہ پریشانیوں سے دوچار ہیں ۔انہوں نے اس حوالے سرکار سے اپیل کی کہ وہ نجی اسکولوں کے اساتذہ کی حالت زار کی طرف اپنی توجہ مرکوز کریں اور کسی پیکیج کا اعلان کریں تاکہ ان کی حالت بھی بہتر ہوسکے ۔انہوں نے کہا کہ استاد سرکاری ہو یا غیرسرکاری لیکن معمار قوم ہوتا ہے لہذا سرکار توجہ دیں ۔
Comments are closed.