کورونا کامحیط سایہ :جموں کے بمقابل سری نگر میں صورتحال سنگین؛اموات کی تعداد100کاہندسہ پارکرگئی

عوام کی لاپرواہی،ہدایات کی اَن دیکھی یاطبی سہولیات کے فقدان کانتیجہ

سری نگر:۹۲،جولائی; سری نگر ایک تاریخی اہمیت کاحامل شہر ہی نہیں بلکہ یہ سابق ریاست جموں وکشمیر کی گرمائی راجدھانی بھی ہے ۔لیکن اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہاں دم تھا،کے مصداق اس شہر کی موجودہ زبوں حالی اورشہریوں کی کسمپرسی کسی اورکی نہیں بلکہ یہاں جنمے،پلے بڑھے اورپھولے پھلے سیاسی لیڈروں کی دین ہے۔جے کے این ایس کے مطابق مردم شماری2011کی رﺅسے سال2010تک شہرسری نگرکی کل آبادی11لاکھ 80ہزار570نفوس پرمشتمل تھی ،جن میں مردحضرات کی تعداد6لاکھ18ہزار790اورخواتین کی کل تعداد5لاکھ61ہزار،780تھی ۔کہنے کوتوسری نگرمیں ایک نہیں بلکہ سرکاری سطح کے نصف درجن بڑے اسپتال ہیں ،جن میں SKIMSبھی شامل ہے جبکہ پرائیویٹ اسپتالوں کی تواب گنتی بھی نہیں ہوپاتی ہے ۔اتناہی نہیں سری نگرمیں کشمیریونیورسٹی،زرعی یونیورسٹی ،میڈیکل کالج2عدد،ایک ڈیٹنل کالج ،ایک انجینئرنگ کالج اورباقی کالجوں وپیشہ ورانہ اداروں کی تعدادبھی حدسے زیادہ ہے ۔اتنے اسپتال ہونے کے باوجود سری نگرمیں صحت وصفائی ،متوازن ماحولیات اورطبی سہولیات کااتنافقدان پایاجاتا ہے کہ بدھ کی صبح تک کوروناوائرس سے یہاں مرنے والوں کی تعداد100سے زیادہ ہوگئی ۔جبکہ منگل کی شام تک بمطابق سرکاری اعدادوشمار مہلک وائرس میں مبتلاءہونے والے افراد کی تعداد4273 تھی ،جن میں سے بقول سرکار کے 2458سرگرم معاملات ہیں ۔1717 مریض صحت یاب ہوئے ہیں جبکہ98 افرادکی موت واقعہ ہوئی ہے۔ کوروناوائرس کے پھیلاﺅ،اس مہلک وائرس میں مبتلاءہونے والے افراد اوراموات کی تعدادکاموازنہ سرمائی راجدھانی جموں سے کیاجائے تومندروں کے شہر میں منگل کی شام تک کورونا وائر س کے 940مثبت معاملات پائے گئے جن میں410سرگرم معاملات ہیں اور515صحت یاب ہوئے ہیںاور15کی موت واقعہ ہوئی ہے۔غورطلب ہے کہ مردم شماری2011کے مطابق سال2010تک جموں شہرکی کل آبادی15لاکھ29ہزار958نفوس پرمشتمل تھی ،جن میں مردحضرات کی تعداد8لاکھ13ہزار821اورخواتین کی کل تعداد7لاکھ16ہزار،137تھی،اوریہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سرکاری سطح پر اسپتالوں کی تعدادکے اعتبارسے جموں کاسری نگرسے کوئی مقابلہ یاموازنہ نہیں ہے۔سری نگرمیں کوروناوائرس کے پھیلاﺅ اوراس وائرس سے ہونے والی بے تحاشہ اموات کے بارے میں سرکاری حکام ،سینئرڈاکٹروں اورمختلف شفاخانوں کے سربراہان سے بات کریں توسبھی کاتکیہ کلام ہے کہ لوگ احتیاطی تدابیر پرعمل نہیں کرتے ہیں ۔بات سراسر غلط نہیں ہے کیونکہ ظاہراًعام لوگ ماسک نہیں پہنتے ہیں اورنہ سماجی دوری کاخیال رکھتے ہیں ،لیکن کورونامخالف مہم کے پالیسی سازوں اورمتعلقہ حکام کویہ بات ماننی پڑے گی کہ کورونامتاثرین کے علاج ومعالجہ کیلئے جولائحہ عمل مرتب کیاگیاتھا،جس کے مطابق اسپتالوں کولیول ۔1،لیول۔2اورلیول۔3زمرے میں رکھاگیاتھا،لیکن اس پالیسی یاطریقہ کارپرکب اورکہاں عمل کیاگیا۔سری نگر کے پشتنی باشندوں اوریہاں مختلف مقاصد،کاموں یامجبوری وضرورت کے تحت مقیم لوگوں کی یہ مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ کوروناوائرس سے پیداشدہ سنگین صورتحال پرخود غورکریں ،اورفیصلہ لیں کہ اس عالمگیر وباءسے بچنے کیلئے کن تدابیر ،ہدایات ،طبی مشوروں اورمحکمانہ وسرکاری احکامات کی پاسداری لازم بنتی ہے ۔

Comments are closed.