پری پیڈ میٹروں کو نصب کرنے کا فیصلہ نا قابل قبول، ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر کشمیری وسائل کے بعد بجلی پروجیکٹوں کو لوٹنے کی تیار ی شروع:کے ای اے
سرینگر:۲۹،جنوری: محکمہ بجلی کی طرف سے پری پیڈ میٹروں کو نصب کرنے کے فیصلے کو ’’ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرز پر کشمیری وسائل کے بعد بجلی پروجیکٹوں کو لوٹنے‘‘ کی تیاری قرار دیتے ہوئے تجارتی انجمنوں کے مشترکہ پلیٹ فارم کشمیر اکنامک الائنس نے بتایا کہ پہلی ہی ریاست میں پانی کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کی گئی اور اب ریاست کے اپنے بجلی پروجیکٹوں پر مرکز کی نظر ہے۔کشمیر نیوز نیٹ ورک کے مطابق کشمیر اکنامک الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈارنے کہا’’محکمہ بجلی کی طرف سے پر پیڈ میٹروں کو نصب کرنے سے بجلی فیس میں بے تحاشا اضافہ ہو جایے گا اور اسکی ادائیگی ایک عام صارف کے پہینچ اور قوت ادائیگی سے باہر ہوگی‘‘۔انہوں نے کہا کہ ریاستی عوام اپنے ہی سر زمین جہاں سے بجلی پیدا ہوتی ہے بجلی کی سہولیات سے محروم رہے گی ۔انہوں نے خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس عمل سے بجلی سیکٹر میں سرمایہ داروں کی اِجارہ داری قایم ہو جائیگی ۔ ین ایچ پی سی کو ریاستی اثاثوں پر اپنا قبضہ ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کشمیر اکنامک الائنس نے واضح کیا کہ کہ انہیں ریاستی وسائل کی مزید لوٹ کھسوٹ کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ریاست میں بجلی کی بحرانی صورتحال کیلئے ’’ سندھ طاس آبی معاہدہ اور این ایچ پی سی ‘‘ کو قرار دیتے ہوئے ’’کے ای اے ‘‘نے کہا کہ ریاست کے بجلی پروجیکٹوں پر صرف ریاست کو ہی حق حاصل ہے۔ ریاستی وسائل کا لوٹ کھسوٹ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کشمیر اکنامک الائنس کے شریک چیئرمین فاروق احمد ڈار نے کہا کہ’’ این ایچ پی سی‘‘ کو ریاستی وسائل اور خزانے دئیے گئے ہیں تاہم انہوں نے صاف کیا کہ اس کے خلاف تاجروں سمیت تمام لوگوں کو اٹھ کھڑا ہونے کی سخت ضرورت ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جو اثاثے این ایچ پی سی کے زیر قبضہ ہے انہیں فوری طور پر ریاست کے حوالے کیا جاناچاہیے کیونکہ پانی بھی ریاست کا ہے ، زمین بھی ریاست کی ہے اور اس سے پیدا ہونی والی بجلی کا حق بھی ریاستی عوام کا حق ہے ۔فاروق احمد ڈار نے صاف کیا ’’ این ایچ پی سی کو آج بھی اور کل بھی تمام بجلی پروجیکٹ چھوڑنے ہے اور ہم کسی بھی قیمت پر یہ پروجیکٹ این ایچ پی سی کے زیر قبضہ رکھنے کی اجازت نہیں دینگے‘‘ ۔ انہوں نے کہا ’’ اب بہت ہوچکا ، ہم نے بہت کچھ کھویا، اب کھرے کو کھرااور کھوٹے کو کھوٹا کہنے کا وقت آچکاہے‘‘۔ مجوزہ راٹلی پن بجلی پروجیکٹ کو این ایچ پی سی کو سپرد کرنے پرکشمیر اکنامک الائنس نے کہا کہ انتظامی کونسل نے 5 ستمبر کو میٹنگ میں 850میگاواٹ راٹلی پن بجلی پروجیکٹ کی اشتراکیت تعمیرکیلئے مرکزی پبلک سیکٹر انڈرٹیکنگ کے ساتھ علیحدہ مشترکہ کمپنی کو قائم کرنے کو منظوری دی ہیں۔انہوں نے گورنر انتظامیہ کی طرف سے اس پروجیکٹ کی مرکز کے ساتھ منظوری کو براہ راست آئین ہند کی شق35ائے اور دفعہ370 پر حملہ قرار دیتے ہوئے اس پروجیکٹ میں مرکزی شراکت داری کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔ کشمیر اکنامک الائنس کے شریک فاروق احمد ڈار نے کہا کہ ریاست کے پاس معقول تجربہ،ماہرین اور اہل انجینئر و فنی عملہ موجود ہیں اور وہ نئے بجلی پروجیکٹ کو از خود تعمیر کرنے کی صلاحت رکھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اس پروجیکٹ کیلئے درکار رقومات آبیانہ سے حاصل کی جاسکتی ہے۔ڈار نے کہا کہ نئے بجلی پروجیکٹ کیلئے شراکت دار کو ریاستی انتظامیہ کونسل کی طرف سے کھڑا کرنا عوامی مفادات کے خلاف ہے،جبکہ ریاستی انتظامی کونسل کو یہ بات فراموش نہیں کرنی چاہے کہ جموں کشمیر کے پاس محدود وسائل ہے۔انہوں نے کہا کہ کشتوار کے دریاے چناب پر درب شالہ میں راتلی پروجیکٹ جموں کشمیر میں قابل کشش اور پرکشش پروجیکٹ سمجھا جاتا ہے،اوریہ 6 ہزار کروڑ روپے سے2017میں مکمل ہونا تھا،تاہم4 برسوں کی تاخیر سے نہ صرف پروجیکٹ کی قیمت میں اضافہ ہوا،بلکہ اس سے تونائی کے حصول کا بھی نقصان ہوا،جبکہ اس کی تکمیل اب2022 تک کھینچ چکی ہیں۔
Comments are closed.