رام مادھو کا نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی پر بلدیاتی انتخابات میں ’پراکسی امیدوار‘ کھڑا کرنے کا الزام

جموں ، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے جموں وکشمیر میں بلدیاتی و پنچایتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی دو علاقائی جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی پر پراکسی (درپردہ ) امیدوار میدان میں اتارنے کا الزام عائد کردیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ وادی کشمیر میں جنگجوو¿ں سے زیادہ ان دو جماعتوں کے کارکن انتخابی امیدواروں کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ رام مادھو نے این سی اور پی ڈی پی پر یہ الزامات جمعہ کے روز یہاں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے لگائے۔ انہوں نے کہا کہ دفعہ 35 اے کے حوالے سے بی جے پی کا موقف واضح ہے کہ اس پر کوئی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی سنانا ہے۔ رام مادھو نے این سی اور پی ڈی پی پر انتخابات میں پراکسی امیدوار کھڑے کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’یہاں ایک عجیب بات سننے کو ملی ہے۔ ایک طرف این سی اور پی ڈی پی کہتی ہیں کہ انہوں نے بائیکاٹ کیا ہے، لیکن بیک ڈور سے ان کے نمائندے کاغذات نامزدگی دائر کررہے ہیں۔ پراکسی امیدوار کھڑے کئے جارہے ہیں۔ لیکن ہم اس کا بھی خیرمقدم کرتے ہیں۔ جمہوریت میں چناو¿ ایک تہوار جیسا ہوتا ہے‘۔ انہوں نے دونوں علاقائی جماعتوں پر انتخابی امیدواروں کو ڈرانے دھمکانے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’وادی کشمیر میں ڈر اور خوف کا ماحول ہے۔ وادی میں ان انتخابات کو جتنا جنگجو اور ان کے بالائی زمین ورکرس ناکام بنانے کی کوششیں کررہے ہیں، اتنی ہی کوششیں این سی اور پی ڈی پی کے ورکروں کی طرف سے بھی کی جارہی ہیں۔ ہمارے پاس رپورٹ ہے کہ وادی کشمیر میں کئی مقامات پر آزاد امیدواروں کو ڈرایا اور دھمکایا گیا۔ انہیں ان جماعتوں کے ورکروں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ یہ جماعتیں ایک خاندان والی جماعتیں ہیں۔ یہ جماعتیں اس ریاست میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دے رہی ہیں‘۔ یہ پوچھے جانے پر کہ ’کیا بی جے پی الیکشن کمیشن میں اس کی شکایت کرے گی‘ تو رام مادھو کا جواب تھا’ہمارے ورکروں نے پولیس اور مقامی انتظامیہ سے اس کی شکایت کی ہے۔ پولیس انتظامیہ نے باضابطہ کاروائی بھی شروع کی ہے۔ کشمیری عوام آنے والے وقت میں ان جماعتوں کو سبق سکھائے گی‘۔ نیوز کانفرنس میں بھاجپا کی ریاستی اکائی کے صدر رویندر رینا اور بھاجپا ممبر پارلیمنٹ جگل کشور شرما بھی موجود تھے۔ بتادیں کہ جموں وکشمیر کی دو بڑی علاقائی جماعتوں این سی اور پی ڈی پی نے ریاست میں اعلان شدہ پنچایتی اور بلدیاتی انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے۔ دونوں جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ مرکزی سرکار دفعہ 35 اے کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑچھیڑ نہ کرنے کی ضمانت دے۔ رام مادھو نے کہا کہ دفعہ 35 اے کے حوالے سے بی جے پی کا موقف واضح ہے کہ اس پر کوئی فیصلہ سپریم کورٹ کو ہی سنانا ہے۔ ان کا کہنا تھا ’جہاں تک دفعہ 35 اے پر ہمارے موقف کا سوال ہے، ہماری جماعت کا موقف واضح ہے۔ کیس اس وقت سپریم کورٹ میں ہے، اس پر کوئی فیصلہ سپریم کورٹ ہی لے گا‘۔ این سی اور پی ڈی پی کے انتخابات میں حصہ نہ لینے کے بارے میں پوچھے جانے پر مسٹر مادھو نے کہا ’یہ این سی اور پی ڈی پی کے دوغلے پن کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم دفعہ 35 اے کی وجہ سے بلدیاتی اور پنچایتی انتخابات میں حصہ نہیں لے رہے ہیں۔ لیکن جب سپریم کورٹ میں کیس جاری تھا تو وہ خوشی خوشی سے کرگل انتخابات لڑرہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ این سی کرگل انتخابات جیت چکی ہے۔کیا اُس وقت دفعہ 35 اے کوئی مسئلہ نہیں تھا؟‘۔ رام مادھو نے الزام لگایا کہ این سی اور پی ڈی پی ریاست میں بلدیاتی و بلدیاتی انتخابات کو روکنے کی ہر ممکن کوششیں کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا ’ہم اس وقت جموں وکشمیر میں بلدیاتی انتخابات کی تیار میں جٹے ہوئے ہیں۔ میں سری نگر سے یہاں آیا ہوں۔ وہاں بی جے پی کے امیدوار تقریباً ہر ایک سیٹ پر انتخابات لڑرہے ہیں۔ یہ ہمارے لئے فخر کی بات ہے کہ جنوبی کشمیر جیسے حساس علاقہ میں بھی تقریباً ہر ایک میونسپلٹی میں بی جے پی کے امیدوار انتخابات لڑنے کے لئے آگے آئے ہیں۔ یہ بات ہمارے ورکروں کی طاقت کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے۔ وہیں دوسری طرف وادی کی جو دو بڑی پارٹیاں ہیں، پی ڈی پی اور نیشنل کانفرنس ، وہ ان انتخابات کو روکنے کے لئے اور ان کو ہونے نہیں دینے کے لئے ہر طرح کی کوششیں کررہی ہیں‘۔ انہوں نے کہا ’ چناو¿ بائیکاٹ کی دھمکی دیکر انتظامیہ کو چناو¿ ٹالنے یا منسوخ کرنے کی بھی ان جماعتوں کی طرف سے کوششیں کی گئی تھیں۔ یہ دو جماعتیں اپنے آپ کو سب سے بڑی بھارت حامی جماعتیں کہتی ہیں۔ جب بھارتی اور جموں وکشمیر کے آئین کے تحت بلدیاتی انتخابات کرانے کا وقت آتا ہے تو پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعتیں نہیں چاہتی کہ ریاست میں گاو¿ں گاو¿ں لیڈر ابھریں۔ یہ نہیں چاہتی ہیں کہ دیہات اور قصبوں میں مقامی لوگ اپنی تعمیر و ترقی کو خود یقینی بنائیں۔ یہ لوگ جمہوریت کو زمینی سطح تک پہنچانے کے خلاف ہیں۔ جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے ہم نے مقامی انتظامیہ کے فیصلے کا احترام کیا۔ جب انتخابات کرانے کا اعلان کیا گیا تو ہماری پارٹی سب سے پہلے سامنے آئی‘۔ انہوں نے کہا ’انتخابات بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں کی ایک اور بات سامنے آئی ہے۔ انہیں جموں اور لداخ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ انہیں شمالی کشمیر جہاں حالات پرامن ہیں، وہاں کی بھی کوئی فکر نہیں ہے۔ ان کی سیاست جنگجوو¿ں کے سامنے جھکنے تک ہی محدود ہے۔ ان پارٹیوں نے جموں واسیوں کو بھی اپنے حق سے دور رکھنے کی کوششیں کی تھیں‘۔ رام مادھو نے کانگریس کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ’کانگریس والے اِدھر اُدھر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہم انتخابات لڑنے کے ان کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ ہمیں لگا تھا کہ یہ جماعت بھی اپنی برداری کی دو مقامی جماعتوں کے ساتھ بھاگ جائیں گی۔ کانگریس نے اچھا فیصلہ لیا ہے ، اس کے لئے ہم اس جماعت کی سراہنا کرتے ہیں۔ جموں وکشمیر کا مفاد دیش کے مفاد کے ساتھ جڑا ہوا ہے‘۔ مادھو نے کہا کہ میں اہلیان کشمیر سے اپیل کرنا چاہتا ہوں کہ وہ بڑی تعداد میں باہر آکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کریں۔ انہوں نے کہا ’وادی کشمیر میں خوف و دہشت کے باوجود بڑی تعداد میں کاغذات نامزدگی داخل ہوئے ہیں۔ میری وادی کے لوگوں سے اپیل ہے کہ وہ انتخابات کے دن بڑی تعداد میں باہر آکر ووٹ ڈالیں‘۔ انہوں نے کہا ’وادی کشمیر میں بڑی تعداد میں ہمارے ورکر انتخابات لڑرہے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ وہاں بی جے پی کے ورکر نمایاں کامیابی حاصل کریں گے‘۔ انہوں نے کہا ’بھاجپا کا آج وادی کشمیر میں سواگت کیا جارہا ہے۔ جنوبی کشمیر جیسے حساس خطہ سے بھی بھاجپا ورکرس بلدیاتی انتخابات میں کھڑا ہوگئے ہیں‘۔ بی جے پی جنرل سکریٹری نے کہا کہ بی جے پی جموں میں واضح اکثریت حاصل کرے گی۔ انہوں نے کہا ’ہم جموں میں بھی پوری طاقت سے انتخابات لڑرہے ہیں۔ ہمیں پوری امید ہے کہ ہم یہاں واضح اکثریت سے کامیابی حاصل کریں گے‘۔ انہوں نے کہا ’جموں میں بی جے پی امیدوار کا بلامقابلہ کامیاب ہونا ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس سے یہ مطلب ہے کہ دوسری جماعتیں کو یہاں امیدوار ہی نہیں ملتے ہیں‘۔ رام مادھو نے کہا کہ پی ڈی پی سے اتحاد ختم کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ریاست میں پنچایتی انتخابات کرانے کے لئے راضی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا ’ہماری اتحادی جماعت یہاں پنچایتی انتخابات کرانے کے لئے بھی تیار نہیں تھی۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ ہمیں حکومت سے باہر آنا پڑا‘۔ انہوں نے کہا ’بی جے پی ایک ترقی پسند جماعت ہونے کے ناطے اور جموں وکشمیر کے سبھی خطوں کے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پوری ہمت کے ساتھ ان انتخابات میں حصہ لے رہی ہے‘۔ بی جے پی جنرل سکریٹری نے کہا کہ ان کی جماعت ریاست میں پنچایتی اداروں سے متعلق 73 ویں اور 74 ویں ترمیم لاگو کرنے کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا ’ہم نے اپنے منشور میں بھارتی آئین کے 73 اور 74 ویں ترمیم کو ریاست میں لاگو کرنے کی بات کہی تھی۔ لیکن یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنے اتحادی کا پورا ساتھ نہ ملنے کی وجہ سے اسے لاگو نہیں کرپائے۔ ہم انتظامیہ سے اپیل کرتے ہیں کہ منتخب پنچایتی اداروں کو مکمل اختیار ملنے چاہیے‘۔

وزیر اعظم کی تبدیلی کے بعد بھی پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی: رام مادھو
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قومی جنرل سکریٹری رام مادھو نے کہا کہ عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ہی پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب تک پاکستان اپنے رویے میں تبدیلی نہیں لاتا ہے، تب تک اس کے خلاف سختی سے نمٹا جائے گا۔ رام مادھو نے جمعہ کے روز یہاں ایک نیوز کانفرنس میں نامہ نگاروں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا ’جہاں تک لاشوں کو مسخ کرنے کے واقعات کا سوال ہے، اس کو صرف بدقسمتی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ان واقعات سے ہمارے پڑوسی کا وحشیانہ چہرہ سامنے آجاتا ہے۔ کچھ لوگ اچھل کود کررہے ہیں کہ نیا وزیر اعظم (عمران خان) آگیا ہے۔ ابھی حالات ٹھیک کرنے چاہیے۔ ابھی بات چیت کرلینی چاہیے۔ ہمارے پڑوسی کے رویہ کی طرف بھی دیکھ لیجئے۔ پڑوسی کے رویہ میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے‘۔ انہوں نے کہا ’یہ واقعات ماضی میں بھی پیش آئے ہیں۔ جب تک پڑوسی کا رویہ تبدیل نہیں ہوجاتا ہے، تب تک بھارت کو سختی سے کام لینا چاہیے‘۔ مرکزی سرکار کے 29 ستمبر کو سرجیکل سٹرائیک ڈے منانے کے فیصلے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مسٹر مادھو نے کہا ’ سرجیکل سٹرائیک پاکستان کی مسلسل شرارتوں کا جواب تھا۔ سرجیکل سٹرائیک ڈے کی تقریبات کے ذریعے ہم لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس بہادر سیکورٹی فورسز ہیں۔ وہ (سیکورٹی فورسز) سرحدوں کی حفاظت کررہے ہیں۔ ہم ان کے بہت شکر گذار ہیں۔ اس پر زیادہ سیاست نہیں کی جانی چاہیے‘۔ یو این آئی

Comments are closed.