دفعہ35اے کا معاملہ:کشمیر وادی میں احتجاج جاری
مین اسٹریم سیاسی جماعتوں،طلبہ اور سرکاری ملازمین نے نکالی ریلیاں
سرینگر(کے پی ایس ) :دفعہ35اے پر حملے کے خلاف جاری احتجاج کے بیچ مین اسٹریم سیاسی جماعتوں نیشنل کانفرنس ،پی ڈی پی کے علاوہ طلبہ اور سرکاری ملازمین وتاجروں اور صنعت کاروں نے ہفتہ کو احتجاجی ریلیاں برآمد کیں ۔مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا جموں وکشمیر کے خصوصی پوزیشن کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کر ے۔
ریاست جموں وکشمیر کی سب سے بڑی جماعت نیشنل کانفرنس کے لیڈران اور کارکنان نے دفعہ 35اے کے حق میں احتجاجی مارچ نکالا ۔یہ احتجاجی مارچ پارٹی کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر کی قیادت میں پارٹی صدر دفتر واقع نوائے صبح زیرو برج سے برآمد کیا گیا ۔
احتجاجی ریلی میں شامل شرکاءنے سپریم کورٹ آف انڈیا سے اپیل کی کہ وہ 35اے کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کرے ۔اس موقعہ پر علی محمد ساگر نے جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کے خلاف چھیڑ چھاڑ کے سنگین نتائج برآمد ہونگے اور نیشنل کانفرنس کے دفاع میں عدالت کے اندر اور باہر جدوجہد جاری رکھے گی ۔
ادھر بانڈی پورہ میں این سی لیڈران وکارکنان نے ایک احتجاج مارچ برآمد کیا ۔اس احتجاجی مارچ کی قیادت این سی لیڈر غلام رسول ناز کررہے تھے ۔بعد میں ریلی میں شامل شرکار پرامن طور پر منتشر ہوئے ۔اس دوران گاندر بل میں بھی این سی کارکنان نے ایک احتجاجی مارچ نکال۔
ادھر پی ڈی پی نے بھی دفعہ35اے کے حق میں ایک احتجاجی مارچ نکالا۔یہ احتجاج مارچ پی ڈی پی کے صدر دفتر واقع پولو ویو سرینگر سے برآمد ہوا ،اسکی صدارت پارٹی کے سینئر لیڈر نظام الدین بٹ کررہے تھے ۔مظاہرین نے لالچوک تک مارچ نکالنے کی کوشش کی ،تاہم پولو ویو چوک میں پولیس نے اُن کا راستہ روکا اور آگے جانے کی اجازت نہیں دی ۔
اس موقع پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے پی ڈی پی کے سینئر لیڈر نظام الدین بٹ نے کہا کہ جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 35 اے سے چھیڑ چھاڑ کے پورے ملک پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ ریاست کے لوگ پارٹی اور دیگر وابستگیوں سے بالاتر ہوکر دفعہ 35 کے دفاع کے لئے متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن سے متعلق قوانین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کسی بھی طور پر برداشت نہیں کی جائیگی ۔ان کا کہناتھا کہ سپریم کورٹ آف انڈیا فوری طور پر دفعہ35اے کے خلاف دائر عرضیوں کو خارج کرے جبکہ پارٹی سے وابستہ ہر ایک ممبر جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ جدوجہد کرنے کےلئے تیار ہے ۔
ادھر جوائنٹ کوارڈی نیشن کمیٹی پرائیویٹ اسکول ایجوکیشن،جموں وکشمیر ڈیموکریکٹ یوتھ فیڈ ریشن اور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کشمیر کی جانب سے علیحدہ علیحد ہ ریلیاں برآمد کی گئیں ۔ان انجمنوں کے تحت پریس کالونی سرینگر میں احتجاج کیا گیا ۔
مختلف ریلیوں میں شامل شرکا ءنے ریاست جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن اور پہچان کیخلاف کی جارہی سازشوں کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے اور نعرے بازی بھی کی۔ انہوں نے دفعہ35Aکی اہمیت اور افادیت کے علاوہ آئین ہند کی اس دفعہ کے خاتمے کے سنگین نتائج برآمد ہونگے۔
انہوں نے کہا کہ اس دفعہ سے ریاست جموں وکشمیر کے سٹیٹ سبجیکٹ قانون آئین میں تحفظ فراہم ہوا ہے اور کشمیر دشمن عناصر نے عدلیہ کا راستہ اختیار کرکے اسے ختم کرنے کی سازشیں رچائی ہیں۔ ایسے میں جموں و کشمیر کے ہر پشتینی باشندے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس دفعہ کیخلاف ہورہی سازشوں کا دفاع کرنے کیلئے سامنے آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس دفعہ کا دفاع کرنے کیلئے منظم رائے عامہ کی ضرورت ہے اور اس میں جموں وکشمیر کے لوگوں کو سیاسی اور دیگر اختلافات بالائے طاق رکھ کر شامل ہونے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل ٹورازم ٹریڈ فیڈریشن نے دفعہ35اے کے حق میں ایک احتجاجی ریلی نکالی ۔احتجاجی ریلی میں شامل شرکاءجہلم ویلی پارک میں جمع ہوئے ،جہاں سے انہوں نے پریس کالونی تک مارچ کیا ۔ان کا کہناتھا کہ 35اے کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائیگی ۔انہوں نے بھی مطالبہ کیا کہ دائر عرضیوں کا خار ج کیا جائے ۔
یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے دفعہ 35 اے کی سماعت کے لئے 6 اگست کی تاریخ مقرر کی ہے۔ تاہم وادی کشمیر میں سماعت سے قبل ہی تناو¿ کی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔ مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے دفعہ 35 اے کے ساتھ کسی بھی طرح کی چھیڑ چھاڑ کے خلاف ایجی ٹیشن شروع کرنے کی دھمکی دی ہے۔
وادی کی تقریباً تمام کاروباری و دیگر انجمنوں نے مجوزہ ایجی ٹیشن کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے بھی دفعہ 35 اے کی منسوخی کی کسی بھی کوشش کے خلاف ’اعلان جنگ‘ کردیا ہے.دریں اثنا راہول گاندھی فینز ایسوسی ایشن کے اہتمام سے پریس کالونی میں احتجاج کیا گیا .
دفعہ 35 اے غیر ریاستی شہریوں کو جموں وکشمیر میں مستقل سکونت اختیار کرنے ، غیر منقولہ جائیداد خریدنے ، سرکاری نوکریاں حاصل کرنے ، ووٹ ڈالنے کے حق اور دیگر سرکاری مراعات سے دور رکھتی ہے۔ دفعہ 35 اے دراصل دفعہ 370 کی ہی ایک ذیلی دفعہ ہے ۔
1953 میں جموں وکشمیر کے اُس وقت کے وزیراعظم شیخ محمد عبداللہ کی غیرآئینی معزولی کے بعد وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی حکم نامے کے ذریعہ آئین میں دفعہ 35 اے کو بھی شامل کیا گیا، جس کی ر±و سے بھارتی وفاق میں کشمیر کو ایک علیحدہ حیثیت حاصل ہے۔
10 اکتوبر 2015 کو جموں وکشمیر ہائی کورٹ نے اپنے ایک تاریخی فیصلے میںدفعہ 370 کو ناقابل تنسیخ و ترمیم قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ دفعہ (35 اے ) جموں وکشمیر کے موجودہ قوانین کو تحفظ فراہم کرتی ہے‘ ۔
Comments are closed.