وادی کشمیر میں تانبے کے برتنوں کا رواج برقرار، شادی بیاہ اور گھریلو استعمال میں پہلی پسند
سری نگر،29ستمبر
وادی کشمیر کی صدیوں پر محیط شاندار تہذیب و ثقافت میں جن چیزوں کو ایک خاص مقام حاصل ہے ان میں سے تانبے کے مختلف النوع برتن خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔اگرچہ بدلتے زمانے کے ساتھ اسٹیل اور جدید کچن ویئر نے مارکیٹ میں اپنی جگہ بنائی ہے ، لیکن اس سب کے باوجود وادی کے عوام میں تانبے کے برتن آج بھی بڑی چاہت اور شوق کے ساتھ استعمال کیے جاتے ہیں۔ سری نگر کے پائین شہر میں واقع مہاراج گنج مارکیٹ تانبے کے برتنوں کے کاروبار کے حوالے سے نہ صرف کشمیر بلکہ پورے شمالی ہندوستان میں اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے ۔ یہاں کی گلیوں میں قدم رکھتے ہی تانبے کی چمک دمک اور ہتھوڑے کی آواز کانوں میں رس گھول دیتی ہے ۔ یہاں روزانہ سینکڑوں خریدار آتے ہیں، کچھ اپنی روزمرہ کی ضرورت کے لئے تو کچھ شادی بیاہ کی تیاری کے سلسلے میں۔ یہاں کے معروف تاجر نثار احمد نے یو این آئی کو بتایا:’وادی کشمیر میں تانبے سے بنی مصنوعات کا رواج اب بھی قائم ہے ۔ لوگ بڑے ذوق و شوق سے یہ چیزیں خرید کر اپنے گھروں کی زینت بناتے ہیں۔ ہمارے کاروبار سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کنبے وابستہ ہیں جو اپنی روزی روٹی اچھی طرح سے کما رہے ہیں۔’ کشمیر میں شادی بیاہ کی رسومات اپنی ثقافت اور رنگا رنگی کے لئے مشہور ہیں۔ ان رسومات میں ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ دولہن کو جہیز یا تحائف میں تانبے کے برتن دیے جاتے ہیں۔
نثار احمد کے مطابق:’یہ روایت آج بھی پوری طرح قائم ہے ۔ دولہن کو تانبے کے بڑے برتن جیسے ڈگچی، تھالی، کڑاہی اور دیگر برتن دیے جاتے ہیں۔ یہ نہ صرف روایت کا حصہ ہے بلکہ تانبے کے برتنوں میں پکایا گیا کھانا ذائقہ اور صحت کے لئے بھی بہترین مانا جاتا ہے ۔’ اگرچہ وادی میں آنے والے غیر مقامی سیاح کشمیری دستکاریوں اور خشک میوہ جات میں زیادہ دلچسپی دکھاتے ہیں، تاہم تانبے کے برتنوں کی خریداری میں ان کی دلچسپی محدود ہے ۔ تاجر نثار احمد کا کہنا ہے کہ صرف دو فیصد سیاح ہی یہ برتن خریدتے ہیں، باقی زیادہ تر خریدار مقامی سطح کے ہوتے ہیں۔ سری نگر کے ایک اور دکاندار بشیر احمد نے بتایا:’سیاح زیادہ تر چھوٹی چیزیں جیسے یادگار کے طور پر پلیٹیں یا چھوٹے پیالے خرید لیتے ہیں، لیکن بڑی خریداری صرف کشمیری عوام کرتے ہیں۔ ہمارے لئے اصل سہارا مقامی گاہک ہیں۔’ پہلگام حملے اور اس کے بعد وادی میں پیدا ہونے والی صورتحال نے اس صنعت کو بھی متاثر کیا ہے ۔
نثار احمد کے مطابق:’اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تیس سے چالیس فیصد کام متاثر ہوا ہے ۔ رواں برس معاشی صورتحال خراب ہونے کی وجہ سے لوگوں نے بہت کم تعداد میں خریداری کی ہے ۔ پہلے ستمبر سے دسمبر تک اچھا کام ہوتا تھا لیکن اب حالات کے اثرات ہمارے کاروبار پر بھی پڑے ہیں۔’ سری نگر کی رہائشی شمیمہ بیگم، جو اپنی بہو کے لئے تانبے کے برتن خریدنے آئی تھیں، کہتی ہیں:’یہ روایت ہمارے گھروں میں نسلوں سے چلی آ رہی ہے ۔ شادی بیاہ کے موقع پر اگر دولہن کو تانبے کے برتن نہ دیے جائیں تو ایسا لگتا ہے کچھ کمی رہ گئی۔’ اسی طرح کالج کے طالب علم فیاض احمد کا کہنا تھا:’میری ماں ہمیشہ کہتی ہیں کہ تانبے کے برتنوں میں کھانا مزیدار اور صحت بخش بنتا ہے ۔ اسی لئے ہم آج بھی یہ چیزیں خریدتے ہیں، چاہے ان کی قیمت بڑھ ہی کیوں نہ جائے ۔’ تاجروں کے مطابق ہر سال خام مال کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے جس کے سبب برتنوں کی قیمت بھی بڑھ جاتی ہے ۔ اس وجہ سے عام خریداروں کے لئے یہ چیزیں مہنگی ثابت ہو رہی ہیں۔ انہوں نے کہا:’خام تانبے کی قیمتوں میں اضافہ نے ہمارا کاروبار مشکل بنا دیا ہے ۔ ہمیں جو مال باہر سے آتا ہے وہ مہنگا پڑتا ہے ، اس لئے ہم بھی مجبور ہیں کہ برتن مہنگے داموں فروخت کریں۔’ اس صنعت سے وادی میں ہزاروں خاندان جڑے ہوئے ہیں، خاص کر سری نگر کے پائین علاقوں میں۔ یہاں کے بیشتر گھرانے اس کاروبار پر ہی انحصار کرتے ہیں۔ کاریگر دن رات محنت کرکے مختلف ڈیزائن اور نقش و نگار کے برتن تیار کرتے ہیں جو کشمیری ثقافت کی جھلک پیش کرتے ہیں۔ ایک مقامی کاریگر، محمد شفیع، نے کہا:’یہ صرف روزگار نہیں بلکہ ہماری پہچان ہے ۔ میں پچھلے تیس برس سے یہ کام کر رہا ہوں۔ اگرچہ آج کل وقت مشکل ہے مگر ہم امید کرتے ہیں کہ حالات بہتر ہوں گے اور ہمارا فن زندہ رہے گا۔’ اگرچہ مشکلات اور معاشی دبا¶ اس صنعت پر سایہ فگن ہیں، لیکن تاجروں اور کاریگروں کو یقین ہے کہ تانبے کے برتنوں کی کشش کبھی ختم نہیں ہوگی۔ یہ وادی کی تہذیب، ثقافت اور روایات کا لازمی حصہ ہیں۔ جیسا کہ نثار احمد نے کہا:’چاہے حالات کیسے بھی ہوں، کشمیری عوام تانبے کے برتنوں کو ہمیشہ اپنے گھروں کی زینت بناتے رہیں گے ۔ یہ ہماری ثقافت ہے ، ہماری پہچان ہے ، اور ہماری تاریخ کا حصہ ہے ۔’ یو این آئی۔
Comments are closed.