جموں میں فوجی چھاﺅنی پر حملہ ،اسپیکر کے متنازعہ بیان پر ایوان میں ہنگامہ ،کارروائی ملتوی

جموں: جموں وکشمیر اسمبلی کے اسپیکر کویندر گپتا نے ایک متنازع بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ جموں کے مضافاتی علاقہ سنجوان میں واقع 36 بریگیڈ فوجی کیمپ پر فدائین حملہ علاقہ میں روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ہے۔ اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس نے اسپیکر کی جانب سے اسمبلی میں دیے گئے اس بیان پر شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسپیکر کی جانب سے ایک مخصوص کیمونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

ہفتہ کی صبح جوں ہی قانون ساز اسمبلی کی کاروائی شروع ہوئی تو حکمران جماعت بی جے پی کے بیشتر ممبران اپنی سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور پاکستان کے خلاف شدید نعرے بازی شروع کردی۔ اس دوران اسپیکر کویندر گپتا جوکہ گاندھی نگر حلقہ انتخاب سے بی جے پی رکن اسمبلی ہیں، نے کہا ’یہ حملہ علاقہ میں روہنگیا رفوجیوں کی موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ہے‘۔ قابل ذکر ہے کہ سنجوان کا علاقہ حلقہ انتخاب گاندھی نگر میں آتا ہے۔

اسپیکر کے بیان سے ایوان میں موجود اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین غصے میں آگئے اور ایوان کی چاہ میں پہنچ کر اسپیکر کے سامنے جاکر زوردار احتجاج کرنے لگے۔ اپوزیشن اراکین کا کہنا تھا ’اسپیکر کی جانب سے ایک مخصوص کیمونٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ اسپیکر صاحب اپنے ریمارکس پر معافی مانگیں۔ بصورت دیگر ہم ایوان کی کاروائی کو چلنے نہیں دیں گے‘۔

شدید ہنگامہ آرائی کے بیچ اسپیکر کویندر گپتا نے ایوان کی کاروائی پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کردی۔ اسمبلی میں اپنے متنازع بیان سے قبل اسپیکر گپتا حملے کے مقام پر گئے اور وہاں موجود نامہ نگاروں کو بتایا کہ روہنگیا مسلمان پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انہوں نے کہا ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہیں کہیں سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ (روہنگیا مسلمانوں) پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی ان کے خلاف کاروائی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی ان پر کوئی فیصلہ لیا جائے گا‘۔

بی جے پی اور پنتھرس پارٹی پہلے سے ہی جموں میں روہنگیائی مسلمانوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ جموں میں اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ رفیوجی بھی رہائش پذیر ہیں، تاہم بی جے پی اور پنتھرس پارٹی انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میںمقیم میانمار کے تارکین وطن کی تعداد محض 5 ہزار 700 ہے۔ یہ تارکین وطن جموں میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔

ایڈوکیٹ ہنر گپتا جو کہ بی جے پی کی لیگل سیل کے ممبر بھی ہیں، نے ریاستی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کر رکھی ہے جس میں عدالت سے جموں میں مقیم برما کے روہنگیائی تارکین وطن اور بنگلہ دیشی شہریوں کی شناخت کرکے انہیں جموں بدر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ عرضی گذار نے الزام لگایا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی جموں میں موجودگی سے ریاست میں علیحدگی حامی اور بھارت مخالف سرگرمیوںمیں اضافہ ہوگا۔

ہنر گپتا نے دائر کردہ مفاد عامہ کی عرضی میں عدالت سے یہ کہتے ہوئے میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کو جموں وکشمیر سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی استدعا کی ہے کہ ریاست یا اقوام متحدہ نے جموں وکشمیر کے کسی بھی جگہ کو رفیوجی کیمپ قرار نہیں دیا ہے۔ انہوں نے عرضی میں میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کو ریاستی خزانے سے فراہم کئے جانے والے فوائد کو روکنے کی عدالت سے ہدایات کی بھی استدعا کی ہے۔ مفاد عامہ کی عرضی میں بنگلہ دیش اور میانمار کے تارکین وطن کی تعداد میں گذشتہ چند برسوں کے دوران ہونے والے اچانک اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔

مفاد عامہ کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار کے تارکین وطن کی موجودگی سے ریاست میں علیحدگی حامی اور بھارت مخالف سرگرمیوںمیں اضافہ ہوگا۔خیال رہے کہ گذشتہ برس فروری کے اوائل میں جموں شہر میں چند ہورڈنگز نمودار ہوئیں جن کے ذریعے پنتھرس پارٹی کے لیڈروں نے روہنگیائی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو جموں چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔

مرکزی سرکار کی جانب سے گذشتہ برس سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دائر کیا گیا جس میں روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں یہ خطرہ مابعد 2014 ءپیش رفت کا پیدا کردہ ہے۔

Comments are closed.