ویڈیو: انٹر ویو:ہڑتالی سیاست اور تشدد کشمیر کےلئے تباہ کُن :ڈاکٹر شیش پال وید
نمائندہ خصوصی
سرینگر 9فروری :غیر مقامی عساکر کے خلاف’ آپریشن آل آﺅٹ‘ شدت کے ساتھ جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے ریاستی پولیس کے سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے واضح کیا کہ گھر واپسی کی پالیسی یعنی (سرنڈر پالیسی) مقامی جنگجو نوجوانوں کےلئے ہے جبکہ پڑھے لکھے نوجوانوں کے ہاتھوں میں بندوق کشمیری سماج کےلئے افسوسناک اور لمحہ فکریہ ہے ۔
انہوں نے پاکستان پر کشمیری نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ تشدد سے گزشتہ تین دہائیوں کے دوران کچھ حاصل نہیں ہوا اور نہ مستقبل میں کچھ حاصل ہوگا ۔علیحدگی پسندوں کو ہڑتال کی سیاست ترک کرنے کا مشورہ دےتے ہوئے پولیس کے سربراہ نے کہا کہ آئے روز کی ہڑتال سے کشمیر کی معیشت تباہ وبرباد ہو کر رہ گئی ہے۔
35ہزار’ایس پی اوز ‘کی تنخواہ میں مزید اضافہ سے صاف انکار کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ اِن اہلکاروں کی تنخواہ مرکزی حکومت واگزار کرتی ہے اور مرکزی حکومت کی اس حوالے سے پالیسی یکساں ہے ۔کے پی ایس کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے انسپکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ وادی کشمیر میں سنہ2016کے مقابلے میں صورتحال کافی بہتر ہے ۔انہوں نے کہا کہ 10دسمبر2016کو انہوں نے اُس وقت ریاستی پولیس کے سربراہ کے عہدے کے بطور اپنی ذمہ داریاں سنبھالی، جب پورا کشمیر تشدد کی بھٹی میں جل رہا تھا ۔ ان کا کہناتھا کہ آہستہ آہستہ وادی کشمیر کی صورتحال میں بہتری ہے ۔
انہوں نے کہا کہ نہ صرف امن وقانون بلکہ ملی ٹنسی کی سطح پر بھی ریاستی پولیس کو کافی کامیابیاں حاصل ہوئیں ۔ڈاکٹر شیش پال وید نے کہا ’خدا کاشکر اور مہر ہے کہ وادی کشمیر میں آہستہ آہستہ امن وقانون کی صورتحال بہتر ہورہی ہے جبکہ ملی تنسی میں بھی پولیس کو کافی کامیابی ملی ‘۔انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں صورتحال معمول کی ڈگر پرہے اور آج عام آدمی بنا خوف کے روزمرہ کا کام کر پارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ پتھراﺅ کے واقعات میں نمایاں کمی آئی ہے جبکہ انکاﺅنٹر مخالف مظاہروں میں کمی آئی ہے ،تاہم اکا دکا پتھراﺅ کے واقعات اب بھی ہورہے ہیں ۔
جنگجونوجوانوں کےلئے گھر واپسی پالیسی (سرنڈر پالیسی) کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ریاستی پولیس کے سربراہ ڈاکٹر شیش پال وید نے دو ٹوک الفاظ میںواضح کیا کہ یہ پالیسی صرف اور صرف مقامی جنگجو نوجوانوں کےلئے ہے ۔انہوں نے کہا ’گھر واپسی کی پالیسی ،ہمارے اپنے بچوں کےلئے جو گمراہ ہو گئے ہیں ،یہ پالیسی پاکستانی یا غیر مقامی جنگجوﺅں کےلئے نہیں ہے ‘۔اُن کا کہناتھا کہ جن نوجوانوں نے بہکاﺅے میں غلط راستہ اختیار کیا ہے ،اُنہیں خود احتسابی کرکے یہ ضرور سوچنا چاہئے ،جو راستہ اُنہوں نے اختیار کیا ہے ،وہ بقول اُنکے بُر بادی اور تباہی پر ختم ہوتا ہے ۔
انہوں نے کہا کہ گمراہی کی وجہ سے بندوق اٹھانے والے کشمیری نوجوانوں کو زندگی جینے کا بھر پور موقع دیا جائیگا اور اُنہیں اپنا مستقبل سنوار نے کےلئے تعاﺅن اور مدد فراہم کی جائیگی ۔ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے تشدد لا حاصل عمل ہے اِس سے کچھ حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ تشدد تباہی کو جنم دےتا ہے ۔ڈائریکٹر جنرل آف پولیس ڈاکٹر شیش پال وید نے کہا’پاکستانی یا غیر مقامی جنگجوﺅں کےلئے یہ گھر واپسی کی پالیسی نہیں ہے ‘۔تاہم انہوں نے واضح کیا کہ جو مقامی نوجوان پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں ہتھیاروں کی تربیت کےلئے گئے ہوئے ہیں ،اُنہیں بھی اِس پالیسی کے زمرے میں لایا جائیگا ۔
ڈاکٹر شیش پا ل وید نے کہا کہ جو کوئی بھی مقامی نوجوان تشدد کا راستہ ترک کرکے گھر واپسی کا ارادہ رکھتا ہے ،اُسے خوشگوار زندگی گزار نے کا بھر پور موقع دیا جائیگا ،تاہم جنہوں نے بقول اُنکے سنگین نوعیت کے جرائم انجام دئے ہیں اُنہیں قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا پڑے گا ۔گھر واپسی کی پالیسی (سر نڈر پالیسی) کے حوالے سے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے مزید کہا ’انکاﺅنٹر کے دوران بھی اُنہیں سرنڈر کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ۔انہوں نے اِس ضمن میں مثال پیش کرتے ہوئے کہا قاضی گنڈ میں معرکہ آرائی کے دوران فوج وپولیس کو جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ،لیکن اِسکے باوجود ایک مقامی جنگجو کو زخمی حالت زندہ پکڑ لیا گیا اور آج وہ زندہ ہے ۔
انہوں نے کہا ’دنیا کی کوئی پالیسی ایسا نہیں کرتی ہے ،لیکن یہ جموں وکشمیر پولیس ہے جو ایسا کار نامہ انجام دیتی ہے ‘۔ریاستی پولیس کے سربراہ نے کہا کہ 85ایسے نوجوان ہے ،جنہوں نے بہکاﺅے میں آکر غلط راستہ اختیار کیا تھا ،کو واپس لایا گیا ۔انہوں نے کہا کہ اِن نوجوانوں کی زندگیاں بچائی گئیں جبکہ والدین کی اپیل پر13نوجوان واپس گھر لوٹ آئے ۔ان کا کہناتھا یہ تمام خاندان خوش نصیب ہیں ،جن کے بچے تشدد کے راستے سے واپس آئے ۔پاکستان پر کشمیری نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ بھارت کے ساتھ جنگ میں پاکستان معصوم کشمیری نوجوانوں کو استعمال کررہا ہے ۔
ان کا کہناتھا کہ اس حوالے سے پڑوسی ملک سوشل میڈیا کا غلط استعمال کرکے کشمیری نوجوانوں کو تشدد کے راستے پر دھکیل رہا ہے ۔کشمیری سکالر منان کی جانب سے بندوق اٹھائے جانے پر پوچھے گئے ایک سوال جواب میں ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے بتایا کہ غلط عناصر کے بہکاﺅے میں آکر اِس نوجوان نے یہ سنگین قدم اٹھا یا جو انتہائی افسوسناک لمحہ فکریہ بھی ہے ۔انہوں نے کہا کہ مذکورہ نوجوان کے گھر والے چاہتے ہیں ،منان واپس آئے اور پولیس بھی اس حوالے سے اپنی کوششیں کررہی ہیں ۔
تاہم انہوں نے والدین سے اپیل کی کہ تشدد کا راستہ اختیار کئے نوجوانوں کو واپس لانے کےلئے اُن سے کسی بھی صورت میں رابط قائم کریں اور پولیس بھی مدد وتعاﺅن فراہم کرے گی جبکہ عوامی تعاﺅن سے نوجوانوں کی واپسی کو یقینی بنایا جارہا ہے اور مستقبل میںبنا یا جائیگا ۔انہوں نے کہا’تشدد کی وجہ سے کشمیر کا چہرہ مرجھا یا ہوا ہے ،میں چاہتا ہوں کہ ہنستا ہوا کشمیر دوبارہ واپس لوٹ آئے ،یہاں سیاح آئیں اور جو ویرانی پائی جارہی ہے ،وہ ختم ہو‘۔علیحدگی پسندوں کو ہڑتال کی سیاست ترک کرنے کا مشورہ دےتے ہوئے پولیس کے سربراہ نے کہا کہ آئے روز کی ہڑتال سے کشمیر کی معیشت تباہ وبرباد ہو کر رہ گئی ہے۔
ان کا کہناتھا ’حریت جتنی کم ہڑتال کی کال دیتی ہے ،اُتنا ہی کشمیر کےلئے بہتر ہے ‘۔انہوں نے کہا کہ ریاستی پولیس کشمیری سماج کا حصہ ہے ،ایسے میں پولیس افسران اور اہلکاروں کو اپنی ذمہ داریاں نبھا نے میں مشکلات درپیش آرہی ہیں ۔پنچایتی انتخابات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ جب کبھی بھی ریاست میں یہ انتخابات منعقد ہونگے ،ریاستی پولیس تحفظ کے حوالے سے پوری طرح سے تیار ہے ۔
انہوں نے کہا کہ جمہوری عمل عوامی مفادات کےلئے ہوتا ہے ،تاہم جہاں تک انتخابات کے دوران امن وقانون کی صورتحال بگڑنے کا احتمال ہوتا ہے ،ایسی کسی بھی صورتحال سے ریاستی پولیس نمٹنے کےلئے پوری طرح سے تیار ہے ۔پولیس محکمہ میں سیاسی دباﺅ کو یکسر مستر د کرتے ہوئے ریاستی پولیس کے سربراہ نے کہا کہ اُنہوں نے بغیر کسی سیاسی دباﺅ کے اپنی ذمہ داریاں انجام دی ہے ۔ان کا کہناتھا کہ یقینا پولیس محکمہ وزیر اعلیٰ کے ماتحت کام کر تا ہے ،لیکن پولیس کو جو صحیح لگتا ہے اُس کے تحت فیصلے کئے جاتے ہیں اور وزیر اعلیٰ کو سربراہ کی حیثیت سے اُن فیصلوں سے آگاہ کیا جاتا ہے ۔
این آئی اے کی مہم جوئی پر لب کشائی کرنے سے احتراض کرتے ہوئے شیش پال وید نے کہا کہ این آئی اے نے چالان عدالت میں پیش کیا ہے ،یہ عدالتی معاملہ ہے اس پر بات کرنا بہتر نہیں ہوگا ،فیصلہ آنے کے بعد دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی صاف ہوگا۔ایک سوال کے جواب میں 35ہزار’ایس پی اوز ‘کی تنخواہ میں مزید اضافہ سے صاف انکار کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ اِن اہلکاروں کی تنخواہ مرکزی حکومت واگزار کرتی ہے اور مرکزی حکومت کی اس حوالے سے پالیسی یکساں ہے ۔2014تباہ کن سیلاب کو ریاستی پولیس کےلئے سبق آموز قرار دےتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ مستقبل میں ایسی کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کےلئے ریاستی پولیس پوری طرح سے اب تیار ہے ۔انہوں نے کہا کہ پولیس جو بھی افسر یا اہلکار کار ہائے نمایاں انجام دیتا ہے ،اُسے ترقی دی جاتی ہے جبکہ اعزاز سے بھی نوازا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں امن کےلئے عوامی تعاﺅن ضروری ہے جبکہ لوگوں کی فلاح وبہبود کےلئے کئی سطحوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ہیں ۔
Comments are closed.