گورنمنٹ کیمونٹی ہیلتھ سنٹر ڈنگی وچھہ کی ناگفتہ بہہ حالت محکمہ صحت کےلئے سوالیہ نشان

سرینگر/12اگست / کے پی ایس

قصبہ ڈنگی وچھہ رفیع آباد میں قائم کیمونٹی ہیلتھ سنٹر کو کافی عرصہ بیت جانے کے بعد نئی بلڈنگ واقع بٹہ سومہ منتقل کیا گیا ہے لیکن اسپتال ہذا کی حالت ہر اعتبار سے ناگفتہ بہہ ہے ۔یہا ں بات قابل ذکر ہے کہ اسپتال کے موجودہ بلاک میڈیکل آفیسر ڈاکٹر محمد عرفان زرگرکی عدم توجہی اور کارستانیوں کا خمیازہ اسپتال ہذا کے ساتھ منسلک درجنوں دیہات کے ہزاروں نفوس کو اٹھانا پڑتا ہے ۔

اس سلسلے میں مقامی لوگوںنے شدید غم وغصہ کا اظہار کرتے ہوئے کشمیر پریس سروس کو بتایا کہ قصبہ ڈنگی وچھہ میں چھ /سات دہائیوں سے پرائمری ہیلتھ سنٹر قائم تھا اور علاقہ رفیع آباد کے ساتھ ساتھ علاقہ قاضی آباد کے لوگ بھی اسی اسپتال میں علاج ومعالجہ کراتے تھے کیونکہ مذکورہ اسپتال میں اس وقت کے تقاضوں کے مطابق ہر قسم کی طبی سہولیات میسر ہوا کرتی تھیں ۔چونکہ اب اسپتال کو کیمونٹی ہیلتھ سنٹر کا درجہ دیا گیا ہے اور حال ہی میں اس کو نئی بلڈنگ میںمنتقل بھی کیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ علاقہ کے لوگوں کو یہ امید تھی اب اسپتال کادرجہ بڑھ جانے سے ان کےلئے زیادہ سے زیادہ طبی سہولیات میسر رہیں گی ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ بلاک میڈیکل آفیسر کی کارستانیوں سے اب مذکورہ اسپتال ایک ڈسپنسری کے درجے پر پہنچ گیا ہے کیونکہ بی ایم او موصوف نے سی ایچ سی کے بجائے اس پر ہیلتھ ویلنس سنٹر (HWC (کا سائن بورڈ نصب کرکے اس کا حقیقی وجود ہی زمین بوس کردیا ہے ۔واضح رہے کہ (HWC) یا ایوش مان CHCمیں ایک شعبہ کے طور پر ہوا کرتا ہے۔ذرایع سے معلوم ہوا ہے کہ صرف CHCڈنگی وچھہ کےلئے 8ڈاکٹر تعینات ہیں لیکن ڈیوٹی پر دو سے تین ڈاکٹر صاحبان موجود ہوتے ہیں ۔7سے15سال سے کئی ملازمین تعینات ہیں جو اب اب اتنے عیش پرست بن گئے ہیں کہ وہ ڈیوٹی دینا بھی گوارانہیں کرتے ہیں اور من چاہئے ڈیوٹی دیتے ہیں ۔ BMOموصوف کی وساطت سے اب مستقل Regularطبی ونیم عملہ کے بجائے ایچ ڈی ایف پر کام کرنے والے ملازمین بشمول ڈرائیوروں کو نائٹ ڈیوٹی پر مامور رکھا جاتا ہے ۔

CHCڈنگی وچھہ کےلئے باضابط طور آیوش یونٹ منظور شدہ ہے جس کےلئے ایک میڈیکل آفیسر اورایک فارماسسٹ تعینات ہیں لیکن مذکورہ یونٹ سرے سے ہی بےکار پڑا ہوا ہے ۔جن ایشودی کیندرا (Jan Ashudi Kendra) کا زمینی سطح پر کوئی وجود ہی نہیں ہے اورحد یہ ہے کہ اس یونٹ کےلئے جو دوائیاں بطور سپلائی اسپتال کو فراہم کی جاتی ہے وہ لوگوں کے بجائے آس پاس کے بنجر زمین میں ڈا ل دئے جاتے ہیں یہ سب کچھ BMOموصوف کی ایماءپرہورہا ہے ۔جبکہ آج ڈیجیٹل انڈیا کے تحت ہر سرکاری دفتر میںtric system Biome رائج ہے ۔اسپتال ہذا میں tric Biome نصب کیا ہوا ہے لیکن اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا ہے ۔کیونکہ بی ایم او موصوف نے ملازمین کو ایسا بے لگا م چھوؑڑیا ہے کہ وہ من چاہئے ڈیوٹی دیتے ہیں ۔اسپتال میں لیبارٹری قائم ہے اور اس کے لئے 4ٹیکنشن تعینات ہیں لیکن دن میں صرف ایک رات کےلئے کوئی ٹیکنشن نہیں ہوتا ہے جس کے نتیجے میں مفت میں ECGہونے کے بجائے مریض کو ہندوارہ ،سوپور یا بارہمولہ تک ایک ہزار روپے خرچ کرنا پڑتا ہے ۔اسپتال میں ڈینٹل سرجن کی کرسی کئی برسوں سے خالی پڑی ہوئی ہے ۔اسپتال میں باضاطہ طور اوپریشن تھیٹر موجود ہے لیکن معمولی سرجری یا ڈیلوری کےلئے مریضوں کو بارہمولہ ریفر کیا جاتا ہے ۔

اسپتال ہذا میں کروڑوں روپے مالیت سے آکسیجن پلانٹ منظور کیا ہوا ہے اور اس پلانٹ کےلئے 5لاکھ روپے شیڈ تعمیر کرنے کےلئے مختص کئے گئے ہیں لیکن BMOموصوف نے رات گئی تو بات گئی کے مترادف شیڈ تعمیر نہیں کیا بلکہ اس پلانٹ کو اسپتال کی سیڑھی کے نیچے نصب کروایا گیا ہے اور اس پر یہ تحفظات ہیں کہ BMOنے متعلقہ ٹھیکہ دار کے ساتھ بندر بانٹ کی ہے جبکہ اسپتال کے دیوار کو نامعلوم وجوہات کی بناءپر ادھورا چھوڑدیا ہے ۔اس طرح سے اسپتال میں بی ایم او کی ایماءپر درجنوں ایسے اسکینڈل ہیں جن کی تہہ تک جانے کی ضرورت ہے ۔ مقامی لوگوں کے بقول اسپتال کی نئی بلڈنگ جو ہاوس بورڈ نے ایک دہائی کے عرصہ میں تعمیر کی ہے کی حالت اتنی خستہ ہے جیسے وہ ساٹھ سال کی بلڈنگ لگ رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ علاقہ اور مقامی چند افراد کی مداخلت سے اسپتال کی یہ حالت آج ہمارے سامنے ہے اور انہی افراد کے آشرواد سے BMOموصوف اس طرح کی نااہلیت کا مرتکب ہورہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ ڈپٹی کمشنر بارہمولہ ڈاکٹر سید سحرش اصغر کے مشکور ہیں جنہوں نے BMOموصوف کو سرعام اپنی فرض شناسی کی طرف متوجہ کیا لیکن موصوف اس کے بعد بھی ٹس سے مس بھی نہیں ہوئے ،انہوں نے کہا کہ کئی مقامی شہریوں کے اشاروں پر BMOموصوف اسی اسپتال کی نہیں بلکہ اس میڈیکل بلاک کے ساتھ منسلک 13ہیلتھ سنٹر وں کی تباہی پر تلے ہوئے ہیں کیونکہ ان سنٹروں میںتعینات طبی ونیم طبی عملہ موصوف کے ساتھ ساز باز کرکے من چاہئے ڈیوٹیاں دیتے ہیں ۔

اس سلسلے میں انہوں نے لفٹنٹ گورنر ایل جی منوج سنہااورکمشنر سیکریٹری ہیلتھ سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ اسپتال میں ہوئی تباہی کا سنجیدہ نوٹس لیا جائے اور BMOموصوف کو بغیر کسی تاخیر وہاں سے تبدیل کیا جائے بصورت دیگر” تنگ آمد بہ جنگ آمد“ کے مصداق لوگ سڑکوں پر آنے کےلئے مجبور ہوجائیں گے اس کے بعد جو بھی نتائج ہونگے اس کی ساری ذمہ داری حکام پر عائد ہوگی۔

Comments are closed.