جموں،27جون
جموں صوبے کے ڈوڈہ اور بانہال میں پیش آئے ٹریفک کے تین الگ الگ حادثات میں دو سگے بھائیوں سمیت 8افراد از جان ہوئے جبکہ ایک درجن کے قریب زخمی ہوئے ہیں جنہیں علاج ومعالجہ کی خاطر نزدیکی ہسپتال منتقل کیا گیا۔
اطلاعات کے مطابق جموں وکشمیر کے ڈوڈہ ضلع میں منگل کی سہ پہر پیش آئے ٹریفک کے ایک دلدوز حادثے میں پانچ مسافر از جان جبکہ سات دیگر زخمی ہوئے ہیں۔پولیس ذرائع نے بتایا کہ منگل کے روز بدرواہ پٹھان کورٹ شاہراہ پر ایک گاڑی زیر نمبر (JK06-5071)ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو کر گہری کھائی میں جاگری۔انہوں نے بتایا کہ حادثے کی اطلاع ملتے ہی پولیس اور مقامی لوگ جائے موقع پر پہنچے اور زخمیوں کو طبی امداد کی خاطر نزدیکی ہسپتال منتقل کیا تاہم ڈاکٹروں نے پانچ افراد کو مردہ قرار دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ زخمیوں میں سے بھی کئی مسافروں کی حالت تشویشناک بنی ہوئی ہے۔پولیس ترجمان نے بتایا کہ حادثے کی وجوہات جاننے کی خاطر کیس درج کرکے مزید تحقیقات شروع کی گئی۔ادھر سری نگر جموں شاہراہ پر چملواس بانہال کے نزدیک آلٹو گاڑی ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو کر کھائی میں جاگری جس کے نتیجے میں دو سگے بھائیوں کی برسر موقع ہی موت واقع ہوئی۔
اطلاعات کے مطابق منگل کی سہ پہر کو چملواس بانہال کے نزدیک ایک آلٹو گاڑی زیر نمبر JK02N 1856دو سو فٹ گہری کھائی میں جاگری جس کے نتیجے میں گاڑی میں سوار تین افراد شدید طورپر زخمی ہوئے۔معلوم ہوا ہے کہ زخمیوں کو سب ضلع ہسپتال بانہال منتقل کیا گیا تاہم وہاں پر تعینات ڈاکٹروں نے محمد افضل ملک اور محمد عظمت پسران گل محمد ساکن سر بھانگی کو مردہ قرار دیا۔
حادثے میں زخمی ہوئے تیسرے بھائی کی شناخت شبیر احمد ملک کے بطور ہوئی ہے۔علاوہ ازیں جموں وکشمیر کے ڈوڈہ بدرواہ شاہراہ پر بھالہ کے مقام پر درمیان شب سڑک حادثہ پیش آیا جس کے نتیجے میں ایک نوجوان از جان جبکہ چار دیگر زخمی ہوئے۔اطلاعات کے مطابق بدرواہ شاہراہ پر بھالہ کے مقام پر درمیانی شب ایکو گاڑی ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو کر گہری کھائی میں جاگری جس کے نتیجے میں اس میں سوار پانچ افراد زخمی ہوئے۔
معلوم ہوا ہے کہ پولیس اور مقامی لوگوں نے فوری طورپر امدادی کارروائی شروع کی اور زخمیوں کو علاج ومعالجہ کی خاطر نزدیکی ہسپتال منتقل کیا تاہم وہاں پر تعینات ڈاکٹروں نے جاوید احمد بٹ نامی نوجوان کو مردہ قرار دیا۔پولیس نے حادثے کی وجوہات جاننے کی خاطر کیس درج کرکے مزید تحقیقات شروع کی۔یو این آئی
Comments are closed.