وادی میں موسم بہار کی آمد کا تہوار ‘نوروز’ جوش و خروش سے منایا گیا

سرینگر 21مارچ
دنیا کے کئی ممالک کی طرح وادی کشمیر میں بھی منگل کو موسم بہار کی آمد پر منائے جانے والے تہوار ‘نوروز’ کی تقریبات کا آغاز ہوا جس کی مناسبت سے وادی میں کافی جوش و خروش اور گہماگہمی دیکھی گئی۔
دنیا کے قدیم ترین تہواروں میں شمار کیا جانے والا یہ تہوار ایران، عراق، افغانستان، کردستان، تاجکستان، ازبکستان، پاکستان، مغربی چین، ترکی کے علاوہ درجنوں ملکوں اور ریاستوں میں منایا جاتا ہے۔نوروز کے موقع پر کشمیرکے شیعہ آبادی والے علاقوں میں لوگ اپنے دوست اور اقارب کے گھر جاکر نوروز کی مبارکباد پیش کرتے ہیں جبکہ بچوں میں نقدی کے علاوہ اخروٹ بھی تقسیم کیے جاتے ہیں۔ عید کے تہوار کی طرح گھروں میں باضابطہ دعوتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
یو این آئی کے ایک نمائندے نے بعض علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد بتایا کہ شیعہ بستی والے علاقوں میں عید جیسا سماں تھا۔انہوں نے کہا کہ بچوں نے نیا لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور وہ مختلف کھیل کھیلنے میں مصروف تھے اور بعض بچے پٹاخے بھی پھوڑتے تھے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ایک دوسرے کے گھر جاتے ہوئے اور مبارکبادی دیتے ہوئے دیکھا گیا۔اس تہوار کے موقعے پر کشمیری ندرو اور مچھلیوں کا پکوان خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وادی کے دیگر مشہور پکوان بھی تیار کئے جاتے ہیں۔مورخین کے مطابق ایران اور کشمیر کا رشتہ بلند پایہ ولی کامل حضرت میر سید علی ہمدانی کی چودہویں صدی میں ہمدان ایران سے کشمیر تشریف آوری سے جڑا ہے، جنہوں نے تبلیغ اسلام کے ساتھ ساتھ اہلیان وادی کو دستکاریاں بھی سکھائی تھیں جن سے لوگ روزگار کمانے کے قابل بن گئے تھے۔نوروز کے تہوار کے ساتھ ہی وادی میں شجر کاری کا بھی باقاعدہ آغاز ہوا۔ لوگوں کو اپنے باغوں اور پارکوں میں پیڑ پودے لگانے میں مصروف دیکھا گیا اور پھول پودوں اور میوہ درختوں کی منڈیوں میں گاہکوں کا خاصا رش دیکھا گیا۔ایرانی کلینڈر کے مطابق ‘نوروز’ سال نو اور بہار کا ایک ساتھ استقبال کرنے کا دن ہے اور وادی میں اسے موسم بہار کے استقبال اور اس دن رونما ہونے والے تاریخی واقعات کی خوشی میں منایا جاتا ہے۔ایران میں اگرچہ ‘نوروز’ کی خوشیاں تیرہ دنوں تک منائی جاتی ہیں،
جس کے دوران وہاں کے بیشتر سرکاری، نجی و دیگر اداروں میں عام تعطیل ہوتی ہے، تاہم وادی کے شیعہ آبادی والے علاقوں میں اس تہوار کی خوشیاں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتے تک منائی جاتی ہیں۔یو این آئی

Comments are closed.