وادی کشمیر میں مشنری اسکولوں کی من مانیاں جاری ، حکومتی احکامات نظر انداز ،حکام بے بس کیوں ؟
داخلہ فیس اور عمر میں ایجوکیشن پالیسی مخالف اقدام پروالدین اور سماجی کارکن نالاں
سرینگر /22ستمبر / کے پی ایس : سرکار کی جانب سے نئی تعلیمی پالیسی اور جاری کردہ احکامات کو اپنانے کے حوالے سے اگر چہ سرکاری اور نجی اسکولوں میں لائحہ عمل ترتیب دیا جارہا ہے اور یہاں کے بیشتر نجی اسکولوں میں داخلہ فیس کے نام پر رقم کثیر بچوں کے والدین سے حاصل کیا جارہا رتھا لیکن سرکاری احکامات سامنے آنے کے بعدنجی اسکول منتظمین نے اس پرعمل کرکے بغیرایڈمیشن فیس کے بچوں کو داخلہ دینا شروع کیا جبکہ یہاں قائم صدیو ں یا دہائیوں سے قائم مشینری اسکول نئی تعلیمی پالیسی اور محکمہ تعلیم کے جاری کردہ احکامات کے منافیاقدام اٹھارہے ہیں ۔اس سلسلے میں کشمیر پریس سروس کے ساتھ بچوں کے والدین نے بتایاکہ نئی تعلیمی پالیسی کے مطابق بچوں کا کے جی میں+4 داخلہ دینے کے واضح ہدایات دئے ہیں لیکن مشنری اسکولوں کے منتظمین ماضی کی پالیسی پر ہی گامزن ہیں اور وہ آج بھی +3عمر کے بچوں کو داخلہ دیتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ بچے کی عمر امتحانات اور ٹسٹ کی نہیں ہوتی ہے جبکہ گذشتہ دو تین برسوں سے بچوں کا تعلیمی رجحان ہی کم ہوا ۔لیکن ان اسکولوں میں پہلے بچے کا ٹسٹ لیا جاتا ہے اور ان والدین کا ٹسٹ لیاجارہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اتنا ہی نہیں ہے بلکہ داخلہ کیلئے والدین کی ماہانہ آمدنی رقم کثیر ہونے کی شرط بھی رکھی گئی ہے اوربچوں کو ان مشنری اسکولوں میں داخلہ دلانے کے خاطر والدین چارٹر اکائونٹنٹس سے ماہانہ انکم سرٹفکیٹ زیادہ سے زیادہ بنانے میں الجھ جاتے ہیں ۔ایک ایجوکیشن اکٹوسٹ قیصر احمد نے کے پی ایس کے ساتھ بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اس حوالے سے گذشتہ کئی برسوں سے متحرک ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سرینگر کے مختلف بڑے نجی اسکولوں بشمول گرین ویلی ،کشمیر ہاروارڈ ،آر پی ایس اسکول نے نئی پالیسی کے تحت بچوں کا داخلہ بغیر ایڈمیشن فیس کے شروع کیا جبکہ +4عمر کے بچوں کو داخلہ دینے کی پالیسی واضح کی ہے ۔لیکن یہاں کے مشنری اسکولوں بشمول کانوینٹ پرزینٹیشن کے منتظمین سرکاری احکامات کو نظر انداز کرکے اپنی من مانیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ 3یا +3کے بچے کی عمر کھیلنے کی ہوتی ہے اور وہ ٹسٹ کیا ہوتا ہے وہ کیا جانے گا ؟انہوں نے کہا کہاتنا ہی نہیں بلکہ وہ والدین کو بھی ٹسٹ کے پابند بناتے ہیں اورزیادہ سے زیادہ آمدنی والے والدین کے بچوں کا ایڈمیشن کرتے ہیں جبکہ کم آمدنی والے والدین کے بچوں کو نظر انداز کرتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایک سماجی کارکن کی حیثیت سے اس نے اس استحصالی پالیسی کے خلاف عدالت میں بھی مفاد عامہ کے تئیں عرضی دائر کی ہے جبکہ کئی میڈیا ہاوسز میں بھی استحصال کو سامنے لایا ہے ۔لیکن سرکاری سطح پر ان مشنری اسکولوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں اٹھائے جارہے ہیں ۔ انہوں نے انتظامیہ سے تحقیقات عمل میں لانے کا مطالبہ کیا تاکہ یہ استحصالی پالیسی ختم ہوجائے گی ۔
Comments are closed.