اسلام مخالفت روکنے کیلئے قانون لانے کا مطالبہ ؛ گستاخانہ تقاریر ہی فرقہ وارانہ فسادات کی بنیادی وجہ قرار

سرینگر/09جولائی/سی این آئی// مسلم تنظیموں اور پرکاش امیڈ کر کی ونچت بہوجن اگھاڑی نے اسلام کے خلاف پروپگنڈا اور گستاخی کے خلاف قانون لانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کی بنیادی وجہ نفرت انگیز تقاریرکے خلاف موجود قانون ہے کیوں کہ یہ قانون شر پسند عناصر کو اسلام مخالف پروپگنڈا اور توہین آمیز کلمات کو روکنے ناکافی ہے ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق ونچت بہوجن اگھاڑی کی سربراہی میں پرکاش امبیڈکر اور مختلف ملسم تنظیموں جیسے رضا اکیڈمی اور تحفظ ناموس رسالت بورڈ نے مہاراشٹر حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ان لوگوں کو سزا دینے کے لئے خصوصی قانون لایا جائے جو پیغمبر اسلام حضرت محمدؐکی توہین کرتے ہیں۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق مسلم تنظیموں نے ریاستی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ’پروفٹ محمد ؐایکٹ‘ کو متعارف کروائے تاکہ نبی کریم ؐ اور دوسرے تمام مذاہب کے مذہبی سربراہان اور شخصیات کی بے حرمتی کو روکا جاسکے۔یہ بل پہلے ہی تیار کیا جاچکاہے اور ریاستی حکومت کو پیش کیا جائے گا۔ اگرچہ اس کی تشہیر ’پروفٹ محمد ؐ ایکٹ‘ کے نام سے کی جارہی ہے لیکن اس کا نام ‘توہین رسالت ? و مذہبی سربراہان ایکٹ یاگستاخانہ زبانیں (روک تھام) ایکٹ 2021’ ہوسکتا ہے۔مولانا معین اشرف قادری (معین میاں) نے کہا کہ ’’یہ ہماری تجویز ہے لیکن حکومت جو بھی انتخاب کرے گی اس کا نام رکھ سکتی ہے۔ ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ ہمارے نبی پاک ؐ اور تمام مذہبی سربراہان کی بے حرمتی ، تضحیک اور توہین روکنے کے لئے ایک مضبوط قانون ہونا چاہئے۔ فرقہ وارانہ جھڑپیں اس لئے ہوئی ہیں کہ نفرت انگیز تقریر کے خلاف موجودہ قانون شرپسند عناصر کو روکنے کے لئے ناکافی ہے‘‘واضح رہے کہ مولانا معین اشرف قادری (معین میاں) رسالت بورڈ کے سربراہ ہیں اور وہ آل انڈیا سنی جمعیت العلما کے صدر بھی ہیں۔رضا اکیڈمی نے دھمکی دی ہے کہ اگر اسمبلی میں ‘تحفظ ناموس رسالت بل’ منظور نہ کیا گیا تو وہ ملک گیر احتجاج کریں گے۔ایس پی رہنما ابو اعظمی نے اس کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ دریں اثنا ایس پی رہنما ابو اعظمی نے کہا ہے کہ اس بل کو لانا بہت ضروری ہے کیوں کہ جو بھی پیغمبر کے بارے میں برا سلوک کرتا ہے اسے سزا دی جانی چاہئے۔انہوں نے کہا کہ سلمان رشدی جیسے لوگ جو نفرت پھیلاتے ہیں، ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ نہ صرف مسلمانوں کے بارے میں بلکہ یہ بل تمام مذاہب کے لیے ہونا چاہئے تاکہ لوگ گاندھی جی ، ویویکانند اور دیگر لوگوں کے بارے میں بھی برا سلوک نہ کرسکیں‘‘۔انہوں نے مزید کہا کہ ’’صرف مہاراشٹرا میں ہی نہیں بلکہ پورے ملک میں یہ بل نافذ ہونا چاہئے۔تمام مذاہب کو اس بل کی حمایت میں آگے آنا چاہئے۔

Comments are closed.