پروفیسر جی ایم بٹ کا انتقال ایک ادارے کا خاتمہ ؛ ورچیول تعزیت اجلات میں مرحوم کو شاندار خراج عقیدت پیش کیا گیا
سرینگر/18مئی//ڈین شعبہ الیکٹرانکس کشمیر یونیورسٹی پروفیسر جی ایم بٹ کے انتقال کے سلسلے میںجے کے ایجوکیشنل کونسل نے ایک ورچیول تعزیتی اجلاس منعقد کیا جس دوران مقررین نے مرحوم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ ایک اُستاد کی موت ایک صدی کی موت ہوتی ہے کیوں کہ اُستاد صرف ایک اُستاد نہیں ہوتا بلکہ قوم و سماج کو صحیح سمت دینے میں راہنماءبھی ہوتا ہے ۔ پروفیسر جی ایم بٹ ڈین الیکٹرانکس کشمیر یونیورسٹی رواں ماہ کی 11تاریخ کو سرینگر کے رعناواری ہسپتال میں انتقال کرگئے ۔ مرحوم کے انتقال پر جہاں سماج کے مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ انجمنوں نے اپنے دکھ اور افسوس کااظہار کیا ہے وہیں پر پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن نے بھی اپنے رنج و غم کااظہار کرتے ہوئے مرحوم کی موت کو ایک سانحہ سے کم نہ قراردیا ۔ مرحوم کے انتقال کے سلسلے میں جے کے ایجوکیشنل کونسل کی جانب سے آج ایک ورچیول تعزیتی اجلاس کی نظامت پرائیویٹ سکول ایسوسی ایشن کے صدارت صدر ایسوسی ایشن جی این وار صاحب نے انجام دی ۔اجلاس جس میں مرحوم کو شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا ۔ مرحوم 1964میں چیوا صفا پورہ میں پیدا ہوئے اور ابتدائی تعلیم صفاپورہ میں ہی مکمل کی اس کے بعد انہوںنے 1987میں شعبہ الیکٹرانکس میں پوسٹ گریجویٹ کی ڈگری مکمل کی جس کے بعد وہ اسی شعبہ میں لیکچرار تعینات ہوئے اور اسی برس سے ان کا معمار قوم کا سفر شروع ہوا ۔مرحوم نے کشمیر یونیورسٹی کے مختلف عہدوں پر اپنے فرائض انجام دئے ۔ورچیول اجلاس میں مشی گین اسٹیٹ یونیورسٹی یو ایس اے کے چیئرمین پروفیسر قاضی ایس اظہر اور چیئرمین سائنسی جائزہ کمیٹی ، مرکزی اسپیکر تھے جبکہ پروفیسر جاوید مسرت وائس چانسلر یونیورسٹی لکھنو¿ نے اجلاس کی صدارت کی۔پروفیسر قاضی ایس اظہر نے کہا کہ پروفیسر کی موت ادارے کی موت ہے اور یہ پورے معاشرے کے لئے بہت بڑا نقصان ہے۔ انہوں نے کہا کہ پروفیسر کوئی عام آدمی نہیں ہوتا ہے ، پروفیسر کی تشکیل میں کئی دہائیاں لگتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر کسی پروفیسر کیریئر کے اواخر میں ہی اس کی موت ہوجاتی ہے تو اسے ادارے اور پورے معاشرے کے لئے ایک بہت بڑی بدقسمتی کے طور پر سمجھا جاسکتا ہے۔ پروفیسر جی ایم بھٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ، انہوں نے مشورہ دیا کہ ہر پروفیسر کو اپنی صحت کی پوری دیکھ بھال کرنی چاہئے اور وہ حتمی طور پر ملک ساز ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی بہت سے پروفیسرز کووڈ کی وجہ سے انتقال کر گئے ، جس نے معیاری تعلیم کے شعبے میں ایک بہت بڑا خلا پیدا کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ پروفیسر جی ایم بھٹ ایک عظیم جدید سائنسدان تھے۔ اس کے حوالہ جات ، اشاعتیں ان کے عظیم کام کی گواہی دیتی ہیں۔ پروفیسر جی ایم بھٹ کی شاندار وراثت اپنے طلباء اور ان کے بڑے کام کی شکل میں زندہ رہے گی۔اس موقعے پر پروفیسر جاوید مسرت نے کہا کہ پروفیسر جی ایم بھٹ ایک عظیم سائنسدان تھے جن کا نام 700 سے زیادہ جرائد میں مذکور ہے۔ انھیں 45 سے زیادہ پیٹنٹ کی رجسٹریشن کے لئے اعزاز حاصل ہے۔پروفیسر حامد نسیم رفیع آبادی ، ڈین سوشل سائنسز ، سی یو کے نے کہا کہ ہمیں پروفیسر جی ایم بھٹ کی شراکت کو فراموش نہیں کرنا چاہئے اور ان کی میراث کو زندہ رہنا چاہئے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ اس عظیم روح کے اعزاز کے لئے ایک ”چیر“قائم کی جائے اور لیکچرز کا ایک سلسلہ ترتیب دیا جائے۔اس دوران پروفیسر شبیر احمد بٹ نے مرحوم کے بارے میں بات کرتے ہوئے جذبات پر قابو نہیں پاسکے ۔ انہوں نے کہا کہ ان اوقات میں پروفیسر جی ایم بھٹ کی موت کا دوہرا سانحہ ہے۔ پہلے ہم نے ایک عظیم انسان کھو دیا اور دوسری بات کہ ہم اس کے کنبہ کو تسلی دینے کے لئے اس کے گھر بھی نہیں جاسکتے ہیں۔ ہمارے جذبات دبے ہوئے ہیں۔ آن لائن تعزیت اجلاس میں پروفیسر الطاف پنڈت ، ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی ، ڈاکٹر طارق عبداللہ، ڈاکٹر علی محمد ، لوپا شاہ، منظور احمد وانگنو ، نذیر احمد ، ڈاکٹر سجاد اطہر، ڈاکٹر منان خان ، جی این خاموش اور دیگر اہم شخصیات نے شرکت کی ۔ اجلاس کے آخر پر مرحوم کے حق میں دعائے مغفرت کی گئی اور لواحقین کے ساتھ یکجہتی اور تعزیت کااظہار کیا گیا ۔
Comments are closed.