گپکار الائنس کے طرز پر جموں الائنس کیلئے تیاریاں ؛ 370اور سٹیٹ ہڈ کی جلد بحالی کو لیکر سیاسی لیڈران ایک پلیٹ فارم پر جمع

سرینگر/ 12مارچ/سی این آئی// سرینگر میں گپکار الائنس کے قیام کے طرز پر جموں میں بھی اسی طرح غیر بی جے پی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر آکر اتحاد قائم کرنا چاہتی ہے ۔ گپکار ڈکلریشن کے طرز پر اب جموں میں بھی ایک آواز اٹھنے لگی ہے، جس میں کئی لوگ اب جموں ڈکلریشن کی بات کرنے لگے۔جموں کے لیڈر ان کا ماننا ہے کہ جموں ڈکلریشن گپکار اعلامیہ کے طرز پر ہی ہونا چاہئے، لیکن ایجنڈا الگ ہے، جہاں گپکار ڈکلریشن جموں وکشمیر میں 370 کی بحالی اور اسٹیٹ کا درجہ واپس دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں جموں اعلامیہ میں لوگ جموں کے مسائل اور لوگوں کے احساسات کا خیال رکھنے کو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، سبھی فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کو آپسی اتحاد کے لئے ایک جگہ کھڑا کر رہے ہیں۔جموں میں لیڈران کا کہنا ہے کہ وہ جموں کے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق دفعہ 370کی منسوخی سے ناخوش گپکار احتجاج کے طرز پر جموں بھی بھی ایک اتحاد قائم کیا جارہا ہے ۔ چار اگست 2019 کو گپکار اعلامیہ پر تقریباً 6 پارٹیوں نے دستخط کئے، یہ سبھی آرگنائزیشن جن میں نیشنل کانفرنس، پی ڈی پی، کانگریس، پی سی اور دیگر چھوٹی بڑی پارٹیوں کے لیڈران نے متحد ہوکر دستخط کئے۔ انہوں نے مرکزی حکومت کو آگاہ کیا کہ وہ ایسا قدم نہ اٹھائے، جس سے یہاں کے حالات بگڑجائیں اور یہ بھی کہا تھا کہ مرکزی سرکار کو دفعہ 370 اور35 اے منسوخ نہیں کرنا چاہئے، لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ 5 اگست کو مودی سرکار نے ایک بڑا فیصلہ لیا، جس میں پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں دفعہ 370 اور 35 اے کو منسوخ کیا گیا اور جموں وکشمیرکو یوٹی کا درجہ دیا۔ ساتھ ہی لداخ کو بھی علیحدہ کرکے یوٹی بنادیا۔مرکزکے اس فیصلے سے گپکار ڈکلریشن پر دستخط کرنے والے لیڈاران کافی برہم ہوگئے۔ اس کے فوراً بعد بیشترسیاسی لیڈران کو یا تو جیلوں میں بندکیا گیا، یا انہیں اپنے گھروں میں ہی نظربند کیا گیا، جن میں فاروق عبداللہ، محبوبہ مفتی، سجاد لون اور دیگر لیڈران شامل تھے۔ تب سے آج تک گپکار اعلامیہ کے لوگ جموں وکشمیر میں دفعہ 370 کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالانکہ ان لوگوں نے حال ہی میں ہوئے ڈی ڈی سی انتخابات میں حصہ لیا اورکئی مقامات پرمتحد ہوکرکامیابی حاصل کی۔ گپکار ڈکلریشن کے طرز پر اب جموں میں بھی ایک آواز اٹھنے لگی ہے، جس میں کئی لوگ اب جموں ڈکلریشن کی بات کرنے لگے۔ ان کا ماننا ہے کہ جموں ڈکلریشن گپکار اعلامیہ کے طرز پر ہی ہونا چاہئے، لیکن ایجنڈا الگ ہے، جہاں گپکار ڈکلریشن جموں وکشمیر میں 370 کی بحالی اور اسٹیٹ کا درجہ واپس دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، وہیں جموں اعلامیہ میں لوگ جموں کے مسائل اور لوگوں کے احساسات کا خیال رکھنیکو لے کر آگے بڑھ رہے ہیں، سبھی فرقوں اور مذاہب کے لوگوں کو آپسی اتحاد کے لئے ایک جگہ کھڑا کر رہے ہیں۔جموں میں لیڈران کا کہنا ہے کہ وہ جموں کے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ کہتے ہیں کہ جموں کے لوگوں کو اپنا حق ملنا چاہئے۔ ان کا ماننا ہے کہ جموں میں ہر فرقے کے لوگ رہتے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ جموں میں لوگوں کے مسائل اور دیگر تعمیر وترقی کے حوالے سے انہیں اپنے حق کی لڑائی لڑنی چاہئے۔ یہ لوگ چاہتے ہیں کہ جموں ڈکلریشن میں وہ سبھی سیاسی اور سماجی پارٹیوں کو اس میں شامل کریں اور اس کے لئے کوششیں تیز کردی گئی ہیں اور بہت جلد جموں ڈکلریشن کے لئے خاکہ اور اس کا ایجنڈا لوگوں کے سامنے رکھا جائے گا۔ چودھری لال سنگھ جو ڈوگرہ سابی مان سنگٹھن کے چئیرمین ہیں ان کا کہنا ہے کہ وہ این سی کے دیویندر سنگھ رانا کے اس فیصلے کے ساتھ ہیں۔ ان کا مزید کہنا ہیکہ اس کے لئے سب لوگوں کو آگے آنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ جموں کو الگ اسٹیٹ کا درجہ ملنا چاہئے اورکشمیر کو بھی اپنا حق ملنا چاہئے۔ہرش دیو سنگھ نے بھی کہا کہ وہ اس ڈکلریشن کی حمایت کرتے ہیں۔ تاہم بی جے پی کے رویندرسنگھ نے کہا کہ کوئی جموں ڈیکلریشن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہ جموں ڈکلریشن یہاں چلے گا نہ ہی گپکار ڈکلریشن۔ تاہم بتایا جاتا ہے کہ بی جے پی کے کئی اہم لیڈاران اس ڈکلریشن کی حمایت کرتے ہیں۔ دیوندرسنگھ رانا کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ ہے۔ تاہم جموں کی ترقی اور اسے اپنا حق دلانے میں سب کو یہ اختلافات چھوڑ کر آگے آنا چاہئے۔ اس معاملے پر اب سیاست کافی تیز ہوگئی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ این سی کے دیوندر سنگھ رانا کو اس بارے میں این سی کی منظوری ہے کہ نہیں اور ساتھ ہی یہ بھی دیکھنے والی بات ہوگی کہ جموں ڈکلریشن کس حد تک کامیاب ہوگی۔

Comments are closed.