آنے سے اُس کے آئے بہارے جانے سے اُس کے جائے بہار ؛وادی میں بجلی کا بحران ، لوگوں کےلئے ذہنی کوفت کا باعث ،انتظامیہ بے بس
سرینگر/17نومبر: سرینگر سے لیکرمژھل ،ٹنگڈار،ٹیٹوال اورگریز جیسے دورافتادہ علاقوں میں ماہ نومبرسے بجلی کی فراہمی کولیکربحرانی صورتحال پائی جاتی ہے جبکہ میٹراورغیرمیٹریافتہ علاقوں ،بستیوں اورکالونیوں میں رہنے والے بجلی صارفین کیلئے برقی رؤکی سپلائی کوعملاً شجرممنوعہ بنادیاگیا ہے۔ آبی ذخائرسے مالامال ریاست جموں وکشمیربالخصوص وادی میں بجلی سپلائی کی جوصورتحال پائی جاتی ہے وہ حیران کن ہے کیونکہ بجلی پروجیکٹوں اوربجلی پیدوارکے لحاظ سے ریاست کے دریاNHPCکیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغیوں سے کم نہیں۔کرنٹ نیوز آف انڈیا کے مطابق ریاست کی سرمائی راجدھانی شہرسرینگر سے لیکر شوپیاں ، کولگام ، پہلگام ، کوکرناگ، اوڑی ، ٹیٹوال، کرنا ہ ، گریز بانڈی پورہ اور دیگر علاقوں میں کے علاوہ سرینگر اور دیگر قصبہ جات میں ماہ نومبر سے ہی بجلی سرکار دربار کے ساتھ باادب سرینگر سے اپنا بوریا بسترہ باندھ کر کہیں گھپاؤں میں چلی جاتی ہے ۔ اور اہلیان وادی کو جب چاہئے اپنے نظر کرم سے بہرور کرتی ہے ۔سرینگر سے لیکرمژھل ،ٹنگڈار،ٹیٹوال اورگریز جیسے دورافتادہ علاقوں میں ماہ نومبرسے بجلی کی فراہمی کولیکربحرانی صورتحال پائی جاتی ہے جبکہ میٹراورغیرمیٹریافتہ علاقوں ،بستیوں اورکالونیوں میں رہنے والے بجلی صارفین کیلئے برقی رؤکی سپلائی کوعملاً شجرممنوعہ بنادیاگیا ہے۔گزشتہ ماہ کمشنر پی ڈی ڈی کی زیرصدارت ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وادی کیلئے جس بجلی کٹوتی شیڈول پرمہرثبت کی گئی ،وہ شیڈول زمینی سطح پرکہیں نظرنہیں آرہاہے۔اہل وادی کیلئے بجلی ایک ایسی شے بن گئی ہے جس کے باعث یہاں کے لوگ سب سے زیادہ ذہنی کوفت کے شکار ہوتے ہیں ۔ تاہم کشمیرمیں عام صارفین کوکٹوتی کی لاٹھی سے جیسے ہانکاجاتاہے ،وہ حقوق صارفین کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اب وادی کے صارفین مفت بجلی استعمال نہیں کرتے بلکہ اُسے زیادہ فیس اداکرتے ہیں جتنی کہ اُنھیں بجلی استعمال کرنے کوفراہم کی جاتی ہے۔وادی کے اطراف واکناف میں روزانہ لوگ سڑکوں اورشاہراہوں پرنکل کر بجلی کی عدم دستیابی ،عدم فراہمی ،کٹوتی شیڈول ،آنکھ مچولی اورکم وؤلٹیج کیخلاف صدائے احتجاج بلندکرتے نظرآتے ہیں لیکن کوئی نہ توانکی سنتاہے اورنہ ہی ان کی شکایات یاتکالیف کاازالہ ہی کرتاہے ۔سی این آئی کے مطابق آبی ذخائرسے مالامال ریاست جموں وکشمیربالخصوص وادی میں بجلی سپلائی کی جوصورتحال پائی جاتی ہے وہ حیران کن ہے کیونکہ بجلی پروجیکٹوں اوربجلی پیدوارکے لحاظ سے ریاست کے دریاNHPCکیلئے سونے کے انڈے دینے والی مرغیوں سے کم نہیں کیونکہ این ایچ پی سی کوایک چھوٹی سی کارپوریشن سے مالی اعتبارسے خودکفیل اورمنافع بخش ادارہ بنانے میں جموں وکشمیرکے قدرتی آبی ذخائر کاہی رول رہاہے ۔حقوق صارفین کے بارے میں کافی جانکاری رکھنے والے ایک قانون داں نے بتایاکہ بیرون ملکوں خصوصاً امریکہ ،برطانیہ اوریوری ممالک میں لوگ اپنے حقوق کی خلاف ورزی کے معاملے پرحکومتوں اورمتعلقہ حکام کوعدالتوں میں گھسیٹ کرلے آتے ہیں ،اوروہاں نہ صرف یہ کہ اُنھیں انساف فراہم کیاجاتاہے بلکہ ارباب حل وعقدکی سرزنش کرنے کے ساتھ ساتھ خلاف ورزی یاناانصافی کے شکارہوئے صارف کوہرجانہ بھی دلوایاجاتاہے ۔مذکورہ قانون داں کامانناہے کہ ریاست جموں وکشمیر میں صارفین کی طرف سے انصاف کیلئے متعلقہ عدالتوں کارُخ نہ کرنے کی دوبنیادی وجوہات ہیں ۔اولاًیہ کہ انھیں خودکوحاصل حقوق کی جانکاری ہی نہیں اوردوئم یہ حصول انصاف کیلئے بھی اُنھیں پاپڑجھیلنے کااندیشہ رہتاہے۔
Comments are closed.