جموں وکشمیر میں اردو کی انفرادی حیثیت ختم ،اب ایک کے بجائے پانچ سرکاری زبانیں

برصغیر میں اردو کی اہمیت و افادیت عیاں، محبان اردو اور اردو انجمنوں کا شدید رد عمل ، سرکار سے فیصلہ پر نظر ثانی کا مطالبہ

سرینگر /3ستمبر /کے پی ایس : اردو پورے میں برصغیر میں ہی نہیں بلکہ بین الاقومی سطح پر رابطے کی زبان ہے ۔یہ زبان سمجھنے اور پڑھنے میں بالکل آسان اور سہل ہے ۔اس کے علاوہ اس زبان میں مذہبی رواداری اور آپسی ہم آہنگی ملتی ہے اور جموں وکشمیر میں اردو اس حوالے خاص اہمیت رکھتی ہے کیونکہ اس کو سرکاری زبان ہونے کا درجہ حاصل ہے اگر چہ سرکاری دفتروں اور تعلیمی اداروں میں اس زبان کا جنازہ نکالنے پر شاہی گدیوں پر بیٹھے افسران تلے ہوئے تھے تاہم آج بھی عدالتوں اور محکمہ مال،پولیس ودیگر محکمہ جات میں اردو زبان کو بروئے لایاجاتا ہے ۔جبکہ اردو سرکاری زبان ہونے کے علاوہ اس خطے کے ہر گھر کی آواز اور زبان بن چکی ہے۔کیونکہ نئی نسل کے بچوں میں اکثریت اردو میں ہی بات کرتی ہیں ۔اگر چہ سرکاری دفتروں میں انگریزی زبان اردو پر غالب آئی تھی تاہم سرکاری زبان کا درجہ ہونے پر محبان اردو اپنی آواز بلند کرتے رہتے تھے ۔گذشتہ روز سرکاری زبانوں کے حوالے سے جب فہرست منظر عام پر لائی گئی تو جموں وکشمیر میں اردو کے ساتھ کشمیری ،ڈوگری اور انگریزی کو سرکاری زبانوں میں شامل کیا گیا ہے ۔جوکسی المیہ سے کم نہیں ہے ۔کشمیر ی وادی کے لوگوں کی مادری زبان ہے جبکہ ڈوگری جموں کے کئی علاقوں کی اہم زبان تصور کی جاتی ہے ۔ڈوگری اور کشمیری ادباء وشعراء اور قلمکار امادری زبانوں کی ترقی وترویج کیلئے سرگرم عمل ہیں اوراس حوالے سے ان کی سرگرمیاں بجا ہیں لیکن ان زبانوں کی زمینی صورتحال اس کے برعکس ہیں اور نئی پود میں یہ زبانیں صرف بول چال تک ہی محدود رہی ہیں اور بول چال میں بھی زیادہ تر اردو کا ہی عمل دخل ہے۔سرکاری زبانوں میں انگریزی زبان کو شامل رکھنا مرکزی سرکار کیلئے سوالیہ نشان ہے ؟بھارت نے انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کیلئے عظیم قربانیاں پیش کی ہیں ۔اس میں دورائے نہیں ہے کہ انگریزی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ زبان ہے لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ اس کو بھارت کی ریاستوں یا یونین ٹریٹریز میں سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے ۔ کیونکہ ہر قوم کی پہچان زبان سے ہوتی ہے ۔جموں وکشمیر میں صدیوں سے اردو زبان تسلیم شدہ ہے اور تعلیم یافتہ لوگ اس زبان کو تو اپناتے ہی ہیں لیکن یہاں کے انپڑ ھ لوگ بھی اردو سمجھتے ہیں اور بول بھی سکتے ہیں ۔جبکہ وادی کشمیر میں انگریزی ،ہندی اور کشمیری اخبارات کی ترسیل اور ان کا چلن محدود ہے لیکن اردو اخبارات کی ترسیل اور قارئین کی تعداد کئی گنا ان اخبارات سے زیادہ ہے ۔اس طرح سے یہاں ہر سطح پر اردو زبان تما م زبانوں پر غالب ہے لیکن سرکاری طور اس زبان کی اہمیت کم کرنے کیلئے اب تک نت نئی سازشیں رچائی گئیں۔بالاآخر سرکاری زبان ہونے کے درجے میں اس کی اہمیت کم کی گئی ۔ محبان اردو اور اردو کی مختلف انجمنوں بشمول جموں وکشمیر اردو کونسل اور انجمن اردو صحافت کے زعماء و کارکنوں نے سرکاری زبان اردو کی اہمیت کو برقرار رکھنے کا مطالبہ کیا ۔کشمیر پریس سروس نے انجمن اردو صحافت کے ترجمان زاہد مشتاق کے ساتھ بات کی تو موصوف نے بتایا کہ اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کوسرکاری زبان کا درجہ دینا خوش آئند قدم ہے کیونکہ ہر ایک زبان کو اپناایک مقام اور معیار ہے ۔انہوں نے کہا کہ اردو رابطے کی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ سرکاری سطح پر بھی خاص اہمیت کی حامل ہے کیونکہ آج بھی متعدد محکموں میں اس زبان کوبروئے کارلایا جاتا ہے ۔انہوں نے انجمن اردو صحافت کا موقف واضح کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان ہر سطح پر بڑی اہمیت کی حامل ہے اور جب سرکار کشمیری ،ڈوگری ،ہندی اور انگریزی زبانوں کو دفاتر یا اداروں میں بطورسرکاری زبان رائج کرے گئی تو اردو زبان کو سرفہرست رکھا جائے اور سرکار سے انجمن کا یہ اہم مطالبہ ہے ۔انہوں نے امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ سرکار اردو کی اہمیت اور افادیت کو ملحوظ نظر رکھ سرفہرست رکھنے میں رول ادا کرے گئی ۔کشمیر پریس سروس نے جموں وکشمیر اردو کونسل کے جنرل سیکریٹری حاجی جاوید ماٹجی اور ترجمان جاوید کرمانی سے بات کی تو موصوفین نے اردو کونسل کے موقف کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر کی اب تک کی واحد سرکاری زبان اُردواس وقت کسمپرسی کی حالت میں ہے۔تو باقی زبانوں کو اس فہرست میں شامل کرنے کا کیا مقصد ہے ۔انہوں نے کہا کہ اُردو زبان کوڈوگرہ دور حکومت یعنی گزشتہ سوا سال سے یہاں کی سرکا ر زبان ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور تقسیم ملک کے وقت یہاں کی قانون ساز اسمبلی اور نیا کشمیر کے آئین میں بھی اردو کی اس حیثیت کو برقرار رکھا کیونکہ یہ ایسی واحد زبان ہے جویہاں کے ہر خطے میں بولی اور سمجھی جاتی تھی اورعوام کے درمیان اتحاد اور یگانگت کی علامت تھی۔ لیکن گزشتہ چنددہایوں سے اس زبان کے ساتھ سوتیلی ماںکا سلوک شروع ہوا۔اسے آہستہ آہستہ سرکاری دفتروں سے باہر کیا گیا۔ اس وقت چند گنے چنے دفتروں کو چھوڑ کرنناوے فیصد سرکاری کام کاج انگریزی زبان میں انجام دیا جاتا ہے۔ اس تبدیلی کی بڑی وجہ باہر سے آئے ہوئے بیروکریٹ حضرات، جو اُردو زبان سے نا بلد تھے اس صورتحال میں سرکار کی یہ ذمہ داری بنتی تھی کی اُردو زبان کوکھویا ہوا مقام واپس دلانے کی کوشش کی جاتی نہ کہ اس کو مزید بے اثر بنایا جاتا۔انہوں نے کہا کہ کیا موجودہ حالات کے تناظر میں یہ ممکن ہے کی دفتروں کا کام کاج پانچ زبانوں میںچلایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ڈوگری ،کشمیری اور ہندی زبانوںکے جاننے والے بابو ہر دفتر میں کہاں سے ملیں گے۔یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جس پر عمل کرنا ناممکن ہے۔اس پر طرہ یہ کہ یہاں بولی جانے والی دوسری زبانوں جن میں پہاڑی،گوجری،شیناوغیرہ شامل ہیں نے بھی ان زبانوں کو سرکاری درجہ دینے کا مطالبہ شروع کیا ہے۔اس حوالے سے یہ لوگ بھی اپنے مطالبے میں حق بجانب ہیں۔لیکن اس طرح کے فیصلے سے یہاں کسی زبان کا بھلا نہیں ہوگابلکہ ساری زبانیں بے اثر ہی رہیں گی۔انہوں نے کہا کہ جموں کشمیر اردو کونسل کا موقف ہے کہ اگر سرکار واقعی مختلف زبان بولنے والے لوگوں کی خیرخواہ ہے تو ایسے اقدام اٹھائے جن سے حقیقی معنوں میں ان طبقوں کا بھلا ہوسکے۔

Comments are closed.