شٹر ڈائون فرمان پر دکانداروں نے لگایا سوالیہ نشان؛ کرونا کیسوں اور اموات میں اضافہ اورمعیشت کا جنازہ نکالنے کا سبب/ ٹریڈ الائنس
سرینگر/08اگست: کشمیر ٹریڈ الائنس نے سوالیہ انداز میں انتظامیہ سے پوچھا ہے کہ کیا دکانوں اور کاروباری اداروں کو بند کرنے سے کرونا وائرس کے پھیلائو پر قابو پایا جاسکتا ہے۔سی این آئی کو موصولہ بیان کے مطابق ٹریڈ الائنس کے صدر اعجاز احمد شہدار نے نے کہا کہ اگر واقعتاً شٹر ڈائون سے کرونا وائرس کے پھیلائو کو روکا جاسکتا تھا،تو آج وادی میں روزانہ500کی اوسط سے کرونا کیسز سامنے نہیں آتے۔انہوں نے کہا کہ پہلے مرحلے میں لگاتار3ماہ تک سخت ترین لاک ڈائون کے دوران دکان،تجارتی و کاروباری ادارے اور شاپنگ مال بند رہیں،تاہم اس دوران کیسوں کی تعداد میں بہتدریج اضافہ ہوا،اور دوسرے مرحلے میں بھی سرینگر اور دیگر اضلاع میں لگاتار20روز تک دکانوں کو مقفل رکھا گیا،تاہم اس مدت میں بھی نہ صرف کرونا وائرس میں مبتلا کیسوں میں اضافہ ہو،بلکہ اموت کا نہ تھمنے والا سلسلہ بھی جاری ہے۔اعجاز شہدار نے کہا کہ عید کے بعد بھی اب تیسرے مرحلے کے شٹر ڈائون میں 10روز سے دکانیں اور کاروباری ادارے بند ہیں،اور اموت کا ہندسہ بھی روزانہ کی بنیادوں پر12کے ہندسے کو عبور کرچکا ہے۔انہوں نے کہا کہ انتظامیہ نے لاک ڈائون کو ایک مذاق بنا یا ہے ،لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ بغیر کسی خلل اور رکاوٹ آ بھی سکتے ہیں اور جا بھی سکتے ہیں ،یہ کون سا لاک ڈائون ہے ، بلکہ یہ ذہنوں کو الجھا نے والی اذیت ہے ۔شہدار نے کہا ’انتظامیہ کو اب نئی منصو بہ بندی کیساتھ آگے آنا چاہئے‘۔انہوں نے ایک بار واضح کیا کہ شٹر ڈائون سے کرونا پر قابو پایا نہیں جاسکتا بلکہ اس کیلئے ’’ایس ائو پی‘‘ اور محکمہ صحت و ماہرین کی طرف سے جاری ضوابط پر عمل کرنا لازمی ہے۔شہدار نے سرکار کو مشورہ دیا کہ وہ شٹر ڈائون کا حکم نامہ واپس لیکر زمینی سطح پر کرونا وائرس کو روکنے کیلئے ضوابط کی عملداری کو یقینی بنائے اور اس کیلئے سرکاری مشینری اور عملے کو متحرک کیا جانا چاہے۔ کشمیر ٹریڈ الائنس کے صدر نے نیز لیفٹنٹ گورنر انتظامیہ کو صلاح دی کہ وہ شعبہ صحت کو مظبوط و مستحکم کریں تاکہ اس عالمی وبا میں گرفتار لوگوں کا بہتر سے بہتر علاج و معالجہ کیا جاسکں۔شہدار نے نئے لیفٹنٹ گورنر منوج سنہا سے مطالبہ کیا کہ وہ اس لاک ڈائون منصوبے کا سر نو جائزہ لے اور فوری طور پر اکروباری سرگرمیوں کو بحال کرنے کے احکامات جاری کریں۔
Comments are closed.