بہار میں سیلاب کا قہر جاری؛ 14 اضلاع کے تقریبا 56 لاکھ لوگ متاثر

سرینگر/06اگست: بہار میں سیلاب نے قہر بپا کیا ہے اوراب تک 14اضلاع سیلاب کی زد میں آچکے ہیں جن میں قریب 56لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں اس دوران سرکاری سطح پر سیلاب متاثرین کیلئے اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں ۔ بہار کے کئی کووڈ ہسپتالوںمیں سیلابی پانی گھس چکا ہے جس کی وجہ سے علاج و معالجہ بھی متاثر ہوچکا ہے ۔ کرنٹ نیوز آف انڈیا مانیٹرنگ کے مطابق ریاست بہار میں سیلابی سے بڑی تباہی ہوچکی ہے مشرقی چمپارن ، مغربی چمپارن ، سیتا مڑھی ، شیوہر، سپول ، کشن گنج ، دربھنگہ ، گوپال گنج ، مظفرپور ، سمستی پور ، سارن ، کھگڑیا، مدھوبنی اور سیوان کے ہزاروں گاؤں میں سیلاب کا پانی داخل ہوچکا ہے۔بہار کے چودہ اضلاع میں سیلاب اپنا قہر برپا کررہا ہے۔ مشرقی چمپارن ، مغربی چمپارن ، سیتا مڑھی ، شیوہر، سپول ، کشن گنج ، دربھنگہ ، گوپال گنج ، مظفرپور ، سمستی پور ، سارن ، کھگڑیا، مدھوبنی اور سیوان کے ہزاروں گاؤں میں سیلاب کا پانی داخل ہوچکا ہے۔ متاثرہ علاقہ کے لوگوں کو محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے۔ این ڈی آر ایف اور ایس ڈی آر ایف کی ٹیم کام کررہی ہے وہیں ایک ہزار تین سو 58 کمیونٹی کچن کا انتظام کیا گیا ہے ، جہاں متاثرین کے لئے کھانے پینے کا انتظام ہے۔واضح رہے کہ وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اعلان کیا ہے کہ قدرتی آفات کے شکار لوگوں کا ریاست کے خزانہ پر پہلا حق ہے۔ ایسے لوگ جو سیلاب سے تباہ ہوچکیے ہیں ، ان کے کھاتے میں چھ چھ ہزار روپے بھیجے گئے ہیں ، لیکن سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سیلاب متاثرین اب عارضی مدد کی نہیں مستقل مسئلہ کا حل چاہتے ہیں۔ دراصل انڈو نیپال کے سرحدی ضلع میں ہر سال سیلاب آتا ہے اور تباہی مچا کر چلا جاتا ہے۔ سیلاب سے متاثرہ افراد کو دوبارہ اپنی زندگی پٹری پر لانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، جبکہ حکومت مسئلہ کے حل کی یقین دہانی کرا کر چین کی نیند سو جاتی ہے۔یہ سال چونکہ بہار کا انتخابی سال ہے ، نتیجہ کے طور پر ہر سیاسی پارٹی کی زبان پر سیلاب متاثرین کا درد تو ہے ، لیکن سیلاب زدہ علاقوں میں سیلاب کا کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ جانکاروں کے مطابق سیلاب پر سیاسی پارٹیاں ماضی میں بھی سیاست کرتی رہی ہیں اور ابھی بھی سیاست کررہی ہیں ، جبکہ لوگوں کو سیلاب کے مسئلہ کے مستقل حل کی ضرورت ہے۔ادھر سیلاب کے سبب سیکڑوں گاؤں میں سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں ، تعلیمی ادارے اور اسپتالوں کا حال برا ہے ، کھیتی برباد ہوچکی ہے اور روزگار کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ لوگ مدد کی امید لگائے بیٹھے ہیں ، لیکن سوال ہے کہ کیا اپنا سب کچھ لٹا چکے لوگوں کو حکومت دوبارہ زندگی دے سکتی ہے۔ شاید نہیں ، یہی وجہ ہے کہ سیلاب متاثرین اس مسئلہ کا مسقل حل کرنے کا حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں۔

Comments are closed.